رانا شمیم کیس: صحافیوں پر توہینِ عدالت کی فرد جرم عائد نہ کرنے کی استدعا
رانا شمیم کیس: صحافیوں پر توہینِ عدالت کی فرد جرم عائد نہ کرنے کی استدعا
جمعہ 7 جنوری 2022 13:44
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
اسلام آباد ہائی کورٹ نے رانا شمیم بیان حلفی کیس کی سماعت 20 جنوری تک موخر کردی ہے (فوٹو: سکرین گریب)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی کیس کی سماعت کے دوران رانا شمیم اور تین صحافیوں کے خلاف توہینِ عدالت کی فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی 20 جنوری تک موخر کردی ہے۔
جمعے کو کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی انصار عباسی سے استفسار کیا کہ ’آپ نے درخواست میں لکھا ہے میں نے کلیریکل غلطی کی ہے بتائیں وہ کونسی ہے؟‘
اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’آپ کے فیصلے میں مجھ سے منسوب کر کے لکھا تھا کہ اگر غلط حقائق ہوں تو بھی مفاد عامہ کے لیے شائع کریں گے حالانکہ میں نے تو ایسی بات نہیں کی۔‘
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی انصار عباسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس بینچ سے زیادہ کسی کو اظہار رائے کی آزادی کا خیال نہیں، مگر کیا کوئی جھوٹی دستاویز بھی آپ کو دے دے تو اسے چھاپ دیں گے؟‘
انہوں نے کہا کہ یہ جو بیانیہ بنایا ہوا ہے اس سے درخواست گزاروں کے حق انصاف پر فرق پڑتا ہے۔ بیانیہ یہ ہے کہ (جسٹس) ثاقب نثار نے کسی کیس میں اس عدالت کے ایک جج سے بات کی مگر حقیقت یہ ہے کہ بیان حلفی میں شامل ایک بھی جج بینچ میں شامل نہیں تھا۔ اس بیانیے کے مطابق بینچ میں شامل ہم تین ججوں پر اثر ڈالا جا سکتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے انصار عباسی سے کہا کہ ’آپ کی ایمان داری پر اس عدالت کو کوئی شک نہیں۔ انسان سے ناسمجھی میں بھی غلطی ہو جاتی ہے مگر آپ کو احساس تو ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک عام آدمی یہ حلف نامہ پڑھ کر یہی سمجھے گا کہ اس عدالت کے جج کسی کے زیر اثر ہیں۔‘
آپ کے اخبار میں کل بھی خبر چھپی ہیں جو ’سب جوڈیس‘ (عدالت میں زیر سماعت مقدمے) سے متعلق ہے۔ ان میں بین الاقوامی اداروں کا یک طرفہ موقف ہے کیا آپ نے ان سے اس عدالت کا پچھلا فیصلہ شیئر کیا تھا؟ یہاں عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا یہ شرم ناک نہیں ہے کہ میں بین الاقوامی ادارے کو عدالتی معاون بناؤں؟‘ یہ عدالت ڈکٹیٹ نہیں ہوگی۔
اس موقع پر عدالتی معاون ناصر زیدی نے کہا کہ اس سیاہی کے دور میں آپ کی عدالت ایک مشعل کی طرح ہے۔ ہم نے ہمیشہ اس عدالت کا احترام کیا ہے۔ انجانے میں بھی غلطی ہو جاتی ہے فرد جرم عائد نہ کریں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ میر شکلیل الرحمان کیوں پیش نہیں ہوئے؟ اس پر ان کے وکیل نے بتایا کہ ان کے اہل خانہ کورونا وائرس میں مبتلا ہیں اور وہ خود قرنطینہ میں ہیں۔
انصار عباسی نے کہا کہ وہ کبھی اس طرح عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ انہوں نے بیان حلفی کے حوالے سے جو خبر دی تھی وہ ماضی کے طے شدہ معاملے کے بارے میں تھی نہ کہ زیر سماعت کیس کے حوالے سے تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو نہیں پتا تھا کہ حلف نامے میں سچ ہے جھوٹ ہے تو پھر آپ نے کیوں چھاپا؟
انصار عباسی نے کہا کہ بیان حلفی کے بارے میں رانا شمیم نے بتانا ہے، ہم نے رانا شمیم کا دعویٰ چھاپا اور ثاقب نثار کا بھی دعویٰ چھاپا کہ ایسا کچھ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال سے فرد جرم عائد نہیں ہونی چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آپ نے نہیں کورٹ نے طے کرنا ہے، آپ عدالت کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے۔
اس موقع پر رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ عدالت کی تشویش کے باوجود اب دنیا گولبل ویلج ہے، اب کسی بین الاقوامی ادارے کو تبصرہ کرنے سے روک نہیں سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سب جوڈیس کا جو قانون ہے یہ عدالت اسے نظر انداز کر رہی ہے۔ اس پر لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے مگر آج کل ہر روز کوئی وزیر یا مشیر سب جوڈیس معاملات پر بیان دیتا رہا ہے یہ ہوتا رہے گا۔
انصار عباسی نے کہا کہ ’انہوں نے خبر چھاپتے وقت پوری احتیاط کی اور عدالت یا جج کا نام نہیں چھاپا مگر اس احتیاط پر یہ سمجھا گیا کہ شاید پوری عدالت پر سوال اٹھ گیا حالانکہ ایسا نہیں تھا۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ اگر یہ بیان حلفی نہ ہوتا صرف بیان ہوتا تو بھی آپ چھاپ دیتے اس پر انصار عباسی نے کہا کہ ’اگر صرف بیان ہوتا تو وہ نہ چھاپتے۔ وہ قانونی دماغ نہیں ایک صحافی ہیں۔‘
’یہ المیہ ہے کہ بطور صحافی میں ایسے جج کے سامنے کھڑا ہوں جنہوں نے اظہار آزادی پر بہت کام کیا ہے ۔انصار عباسی نے کہا کہ ’ظفر عباس جو ڈان اخبار کے ایڈیٹر ہیں اور پاکستان کے بہت معتبر صحافی ہیں انہوں نے میری خبر کے ڈیڑھ ماہ بعد کہا کہ اگر میرے پاس بھی یہ بیان حلفی آتا تو میں بھی چھاپ دیتا، گویا یہ صحافتی لحاظ سے غلط نہیں تھا۔‘
چیف جسٹس نے مذاقاٌ کہا کہ شکر ہے انہوں نے نہیں چھاپا ورنہ ان کو بھی توہین عدالت میں بلا لیا جاتا۔ انہوں نے پوچھا کہ کہ عین ممکن ہے کہ بیان حلفی میں بالکل جھوٹ ہو۔ اس پر انصار عباسی کا کہنا تھا کہ بالکل ایسا ہو سکتا ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ آپ نے اپنے وکیل سے نہیں پوچھا تھا کہ بیان حلفی کی قانونی حثییت کوئی نہیں یہ ایسا ہے جیسے کسی کا بیان ہو۔
اس موقع پر عدالتی معاون فیصل صدیقی نے چیف جسٹس سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے خود کئی بار کہا ہے کہ پاکستان میں سب جوڈیس قانون کی سمجھ کی کمی ہے، آپ نے فردوس عاشق اعوان کیس میں اپنے فیصلے میں بھی یہی لکھا تھا۔
’انصار عباسی سینیئر صحافی ہیں آپ نے بھی واضح کیا ہے کہ صحافی کا توہین عدالت کا ارادہ نہیں تھا بلکہ بے احتیاطی پر مبنی رپورٹنگ کی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انصار عباسی کو اس حد تک تو مان لینا چاہیے کہ وہ تو تھوڑی دیر خبر روک لیتے اور مزید احتیاط کرتے تو اچھا ہوتا مگر بے احتیاطی سے رپورٹ کرنے پر کریمینل توہین عدالت نہیں بنتی۔
’صحافی کی حد تک توہین کا ارادہ نظر نہیں آتا مگر جج رانا شمیم کی حد تک ان کے خیال میں توہین کا کیس بنتا ہے کیوں اس میں ارادہ نظر آتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ظہور الہٰی کیس میں سخت کرائیٹیریا بیان کیا ہے کریمنیل توہین عدالت کے لیے۔‘
فیصل صدیقی نے کہا کہ خبر سے درخواست گزاروں کا حق انصاف اگر متاثر ہوا ہوتا تو وہ عدالت سے شکایت کرتے مگر کسی نے ایسا نہیں کیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار عدالت نہیں آئے مگر عدالت کو سب کا خیال رکھنا ہے کہ کسی کا حق متاثر نہ ہو۔
’احتیاطی سے خبر کی اشاعت پر کبھی کریمینل توہین عدالت نہیں لگتی۔ ’چیف جسٹس لوگوں کو تھوڑا ایجوکیٹ کر رہے ہیں کہ سب جوڈیس قانون کیا ہے۔ اس میں میری بھی تعلیم ہو رہی ہے صحافیوں کی بھی ہو رہی ہے وہ کافی ہے۔ اگر فرد جرم عائد ہو گئی تو بری مثال قائم ہوگی۔‘
انہوں نے مثال دی کہ فردوس عاشق اعوان نے عدلیہ کے خلاف ایک پریس کانفرنس کی جو سب میڈیا نے کور کی مگر کسی صحافی کو چارج نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کا خبر پر کنٹرول نہیں ہوتا۔ کسی نے بیان حلفی چھاپا کچھ دن بعد خبر چھپ گئی۔
چیف جسٹس نے انصار عباسی اور عامر غوری کے حوالے سے کہا کہ ان کے موقف میں مسئلہ ہے ان کو تاسف بھی نہیں ہے۔
’آج تک اس عدالت نے عام لوگوں کے حقوق پر فیصلہ دیا ہو تو اس کو اخباروں اور میڈیا میں اہمیت نہیں دی جاتی۔ ہائی پروفائل کیس کی خبر بنتی ہے یہ ہمارے معاشرے کا بھی مسئلہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’صحافیوں کو تاسف ہونا چاہیے معافی نہ ہو مگر افسوس ہو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ایک سیاسی بیانیہ قائم ہو جس سے لوگوں کا عدالت پر اعتماد ختم ہو جائے۔‘
فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ بیانیہ دو طریقے سے رک سکتا ہے، ایک تو جس نے بیان حلفی دیا ہے اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، دوسرا صحافیوں کے حوالے سے اپنے تاثرات دے کر معاملہ ختم کردیں فرد جرم عائد نہ کریں۔
اس موقع پر عدالت نے ریما عمر سے پوچھا کہ وہ کیا کہتی ہیں؟ ریما عمر نے کہا کہ ان کی تین گزارشات ہیں۔ ایک وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اظہار آزادی بالکل بے لگام نہیں بلکہ اس کی کی ایک حد ہے جیسا کہ عدالت نے بھی کہا ہے ۔اس آزادی سے دوسروں کے حقوق نہیں متاثر ہونے چاہییں۔
انہوں نے کہا کہ اچھا ہے عدالت میں سب جوڈیس رول کی تعلیم دی جا رہی کیوں کہ میڈیا میں اسی کیس میں صحافیوں کے خلاف بھی سب جوڈیس تبصرے ہو رہے ہیں ایسے ایسے تبصرے ہو رہے ہیں کہ وہ کسی سازش کا حصہ ہیں۔
’خبر دیتے وقت اخبار پر لازم ہے کہ وہ الزامات کو حقیقت بنا کر نہ پیش کرے بلکہ دعوے کے طور پر پیش کرے اور موقف دونوں سائیڈ سے لے لیں۔‘
اگر الزامات اتنے بے ہودہ اور بے بنیاد ہیں تو لوگ یقین بھی نہیں کریں گے۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ جنگ کی خبر کے بعد سوشل میڈیا اور دیگر میڈیا پر تو بغیر احتیاط کے بیان حلفی چلایا گیا جب یہ احتیاط بھی نہیں کی گئی جو کہ مذکورہ خبر میں ہوئی تھی کہ جج یا عدالت کا نام ہٹا دیں۔
انہوں نے کہا کہ فردوس عاشق اعوان کیس کے فیصلے میں چیف جسٹس نے لکھا تھا کہ توہین عدالت کے لیے توہین کا ارادہ ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مستقبل میں یہ پریکٹس بن جائے گی کہ حلف نامہ بناؤ اور اخبار میں چھاپ دو اور اس کے متن کی احتیاط نہ کرو۔
ریما عمر نے کہا کہ برطانیہ کے قانون کا حوالہ دیا جا رہا ہے تو اس قانون میں سختیاں ہیں مگر اس میں ملزمان کے حقوق بھی ہیں اور جیوری ٹرائل ہوتا ہے ہمارے پاس جیوری ٹرائل نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ برطانیہ نہیں ہے۔ اگر برطانیہ کی بات کریں گی تو پھر پاکستان کے میڈیا کو بھی ایسے ہی ذمہ دار ہونا چاہیے۔ ریما عمر نے کہا کہ جب اسی عدالت کے جج شوکت صدیقی نے الزامات لگائے تو تمام میڈیا نے انہیں رپورٹ کیا۔ اس پر چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا اس عدالت پر شک کر رہی ہیں کہ یہ عدالت کسی کی ہدایت پر کام کرتی ہے۔ ان کا کیس سپریم کورٹ میں ہے۔ ریما عمر نے کہا کہ وہ اپنا نقطہ واضح کرنا چاہتی ہیں کہ انہوں نے شوکت صدیقی کا ذکر کیوں کیا مگر اجازت نہیں ملی اور عدالت نے انہیں بیٹھ جانے کا حکم دے دیا۔
اس موقع پر لطیف آفریدی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فردوس عاشق اعوان کیس میں واضح ہے کہ توہین عدالت جج کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ انصاف کی فراہمی کے تحفظ کے لیے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس میں عدالت آبزرویشن دے کر اسے ختم کردے۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ لطیف آفریدی معاون کے طور پر شاید کہہ رہے ہیں کہ انصار عباسی اور صحافیوں کو چھوڑ دیں اور میرے موکل کے خلاف کارروائی کردیں جس پر لطیف آفریدی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں یہ بھی کر دوں گا۔ لطیف آفریدی نے کہا کہ ان کے خیال میں سب کی تعلیم ہو گئی ہے کارروائی ختم کر دی جائے۔
کیس کے پراسیکیوٹر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ پہلے دن سے میرا موقف ہے کہ صحافی ثانوی پارٹی ہیں اور رانا شمیم مرکزی پارٹی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک بیانیہ بنایا جا رہا ہے اس بیانیے کو بنانے والا یہاں موجود نہیں ہے وہ ایک بڑا فریق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بیانیہ بنایا جا رہا ہے اس میں انصار عباسی اور عامر غوری خود نہیں مگر ان کا ادارہ بڑھ چڑھ کر شریک ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی بہت اہم ہے اور اس سے زیادہ انصاف کی فراہمی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں کہ انصار عباسی نے کہا کہ اگر یہ بیان حلفی صرف بیان کی شکل میں انہیں ملتا تو وہ اسے نہ شائع کرتے یہی عامر غوری نے بھی کہا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اصل بات بیانیہ ہے اگر آج انصار عباسی کو ایک اور بیان حلفی اسی طرح کا آئے تو وہ زیادہ احتیاط کریں گے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس اخبار کو چاہیے کہ واضح کریں کہ وہ اس اس بیانیے کے خلاف ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ رانا شمیم کے خلاف فرد جرم لگا دیں مگر اخبار کے خلاف معاملے کو موخر کردیں۔
انہوں نے کہا کہ فی الحال چونکہ سارے ملزمان یہاں نہیں اگلی تاریخ دیتے ہیں اور سب کو سوچنے کا وقت مل جائے گا۔
صحافی رہنما افضل بٹ نے کہا کہ عدالتوں میں جو کیس انڈر ٹرائل ہوتے ہیں ان کی رپورٹنگ کی روایت بری ہے مگر ہمیں ایک خوف ہے کہ اگر پاکستان کی سب سے معزز عدالت سے صحافیوں کے خلاف ایسا آرڈر چلا گیا تو باقی عدالتیں اپنی تشریح کریں گے اور مشکلات پیدا ہوں گی۔
سماعت کے دوران کیس کے پراسیکیوٹر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے دلائل میں کہا کہ ’پہلے دن سے میرا موقف ہے کہ صحافی ثانوی اور رانا شمیم مرکزی پارٹی ہیں۔ ایک بیانیہ بنایا جا رہا ہے اس بیانیے کو بنانے والا یہاں موجود نہیں۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’بیانیہ یہ ہے کہ کوئی اور اس عدالت کو ہدایات دے رہا تھا۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ ثبوت دیں۔‘
سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی کیس کی سماعت 20 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔
یاد رہے کہ 28 دسمبر کی عدالتی کارروائی کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کیس میں تمام ملزمان پر 7 جنوری کو فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے لندن میں نوٹرائز کرائے گئے بیان حلفی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر الزامات عائد کیے تھے۔ اس خبر کی اشاعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لیا تھا۔