Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: پنجاب حکومت کہاں ہے؟

وزیراعلیٰ پنجاب بڑے کنٹرولڈ طریقے سے اپنی رونمائی کراتے ہیں۔ (فوٹو: ڈی جی پی آر)
مری میں 23 لوگ جان سے گئے۔ برف نئی ہے نہ برف دیکھنے والے، البتہ نرالی ہے صوبائی حکومت جو صرف بیانات کی حد تک ہی اپنا وجود رکھتی ہے۔ خصوصاً اگر کوئی سانحہ ہو جائے تو بالکل ہی غائب ہو جاتی ہے۔
انتظامی نااہلی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے ڈینگی کی وبا بھی پھیل چکی ہے اور اس وقت کسان کھاد کی کمی پر سراپا احتجاج ہیں۔ چینی اور گندم کے بھی بحران آ چکے ہیں۔ کبھی لاہور کی سڑکوں پر کوڑا کرکٹ کا ذکر ہوتا ہے اور کبھی سموگ اور دھواں عوام کے لیے وبال جان بن جاتا ہے۔
دوسری طرف امن و امان کی صورتحال دیکھیے تو موٹر وے کیس اور اس کے بعد کا ردعمل کسی کو بھولا نہیں۔ آئے روز انتظامی افسروں کی تبدیلی بھی اب معمول ہے۔ کارکردگی مگر جوں کی توں ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر کیوں بات گھوم پھر کی پنجاب حکومت کی عدم موجودگی اورعدم دلچسپی کی طرف آ جاتی ہے۔ اس میں سب سے پہلا رول عوامی رابطے کا ہے۔
ایک طرف جہاں وزیراعظم انٹرویو اور تقریروں میں پالیسی دیتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب بڑے کنٹرولڈ طریقے سے اپنی رونمائی کراتے ہیں۔ دور دور سے کھچی ہوئی تصویریں اور سرکاری افسروں کے لکھے ہوئے بیانات۔
مری کے واقعے ہی کو لیجیے۔ وزیر داخلہ مری پہنچے، وزیراعظم کے دیگر وزیر اور مشیر بھی بیان دیتے پائے گئے۔ کوئی نظر نہیں آیا تو پنجاب حکومت نہیں نظر آئی۔ وزیراعلیٰ کے کئی ترجمان بھی بدلے گئے ہیں مگر ترجمانی اب بھی مشکل نظر آ تی ہے۔ صوبائی حکومت میں کئی درجن صوبائی وزرا بھی ہیں۔ شاید ہی کوئی اس طرح کے بحران میں سامنے نظر آئے۔
صوبائی حکومت کی ایک اہم ذمہ داری کسی بھی قسم کی نارمل صورتحال یا ایمرجنسی میں منصوبہ بندی اور تیاری کی ہوتی ہے۔ حکومت کے پاس اطلاعات کا وسیع نظام ہے۔ پولیس، ٹریفک پولیس اور اپنا خفیہ ادارہ سپیشل برانچ ہے اور دوسری طرف انتظامی اداروں کی ایک قطار ہے۔ پٹواری، تحصیل داروں اور تھانیداروں سے لے کر ماحولیات اور سڑکوں کے محکمے ہیں۔

بات گھوم پھر کی پنجاب حکومت کی عدم موجودگی اورعدم دلچسپی کی طرف آ جاتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اگر حکومت تیار، سنجیدہ اور مؤثر ہو تو اس تک بروقت اطلاعات بھی پہنچ جاتی ہیں اور وہ بروقت منصوبہ بندی بھی کر لیتی ہے۔ اس کے لیے شرط تیاری اور سنجیدگی ہے۔ اس تیاری کے لیے گورننس میں دلچسپی لینی پڑتی ہے جو پنجاب حکومت میں کم کم ہی نظر آتی ہے۔ کورونا کی وبا میں این سی او سی کی طرف سے پریشر اور کچھ شعبہ صحت کی کمٹمنٹ سے گزارا ہوا ورنہ باقی سب طرف منصوبہ بندی کے اعتبار سے ’خیر خیریت‘ ہی رہی۔
اگر آج کے دن حکومت سے پوچھا جائے کہ انہیں اگلے کچھ ہفتے میں کس قسم کے چیلنج پیش آنے کی توقع ہے اور ان کی کیا تیاری ہے تو وہ شاید ہی اس کا جواب دے سکیں۔ ہاں البتہ جب کچھ ہوگا تو وہ اس کا الزام عوام پر ضرور رکھ دیں گے۔    
تیاری کے بعد ضرورت ہوتی ہے قوت فیصلہ اور ردعمل کی۔ بہترین تیاریوں کے باوجود بھی حادثے اور سانحے ہو جاتے ہیں۔ مری میں بھی حالات خراب ہونے میں کچھ وقت لگا۔ وزیراعلیٰ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو بھی شیئر کی گئی جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ سیاحوں کی کثیر تعداد کے باوجود انتظامات موجود ہیں۔ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ تمام صورتحال ان کے علم میں تھی تو پھر جب صورتحال خراب ہوئی تو وہ کہاں تھے، یہ پتہ نہیں چلا۔
جو لوگ جان سے گئے وہ 18 سے 20 گھنٹوں تک گاڑیوں میں محصور تھے۔ اس کا مطلب ہے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے ایک اہم ترین ضلع راولپنڈی میں واقع پہاڑی مقام تک 20 گھنٹوں میں کوئی مدد نہیں پہنچائی جا سکی۔

جو لوگ جان سے گئے وہ 18 سے 20 گھنٹوں تک گاڑیوں میں محصور تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پہلے یہ خبر آئی کہ وزیراعلیٰ کا ہیلی کاپٹر آیا ہے۔ پھر وہ وہ خود تنظیم سازی کے اجلاس میں نظر آئے۔ پھر سب ہونے کے بعد پتا چلا کہ جہاز پر اسلام آباد آنا تھا مگر موسم خراب تھا-
آخرکار اتوار کو لوگوں کی ہلاکت کے دو دن بعد وہ مری پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ کاش اس ساری ’پھرتی‘ سے کئی دن برف میں پھنسنے والے اور ہلاک ہونے والوں کے خاندان کی تکلیف کم ہو سکے۔ اس کے بعد بھی جب کوئی سانحہ یا حادثہ ہوگا تو یہی پھرتی دکھائی جائے گی اور یہی بیانات ہوں گے۔
پنجاب انتظامی اور سیاسی لحاظ سے اہم ترین صوبہ ہے۔ وزیراعظم کا وزیراعلیٰ پر اعتماد غیر متزلزل اور بے لچک ہے۔ ان کی اپنی کارکردگی میں بھی وہی مستقل مزاجی ہے جو وزیراعظم کے اعتماد میں ہے۔ جیسی تین سال پہلے تھی ویسی ہی اب ہے۔ اور اب تو کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ شاید بات پنجاب میں تبدیلی سے آگے نکل گئی ہے۔
خیبر پختونخوا میں مقامی حکومتوں کے انتخابات میں عوام نے اشارہ بھی دے دیا ہے۔ پنجاب میں بھی ضمنی انتخابات میں ووٹرز کا رجحان نظر آ گیا ہے۔
بدقسمتی البتہ یہ ہے کہ 11 کروڑ عوام کا صوبہ اسلام آباد سے چلانے کی کوشش کا نتیجہ سامنے آنے کے باوجود بھی سبق نہیں سیکھا جا رہا ہے۔عوام البتہ یہ پوچھتے پائے جا رہے ہیں کہ پنجاب حکومت کہاں ہے؟

شیئر: