سعودی عرب: کان کنی میں سرمایہ کاری میں 150 فیصد تک اضافہ متوقع
مملکت میں اب تک 48 معدنیات کی نشاندہی کی جاچکی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
سعودی عرب کی کان کنی کی صنعت 13 سو ارب ڈالر کی لاگت کے ساتھ آنے والی دہائی میں براہ راست اہم غیرملکی سرمایہ کاری کے تیار ہے۔
عرب نیوز کے مطابق مملکت میں اب تک 48 معدنیات کی نشاندہی ہوئی ہے، جبکہ سونے، تانبے اور فاسفیٹ کی بڑی مقدار میں کان کنی کی جا چکی ہے۔
دیگر ذخائر میں زنک، نیکل اور دوسری نایاب دھاتیں شامل ہیں۔ جن کو کمپیوٹر اور سمارٹ ڈیوائسز بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
کان کنی کے شعبے میں نجی سیکٹر کی شمولیت کے لیے سعودی عرب نے اہم اقدامات کیے ہیں۔
جن کی عکاسی حکومت اور نجی سٹیک ہولڈرز کی کان کنی کی کمپنی معدین کی جانب سے شروع کیے جانے والے عالمی مشترکہ منصوبوں میں ہوتی ہے۔
امریکہ میں پٹسبرک کی الکوا دنیا میں المونیم کی چھٹی بڑی کمپنی ہے، جس کا 2020 میں منافع نو ارب تین کروڑ ڈالر تھا۔ اس کمپنی نے 2009 میں 10.8 ارب ڈالر کے مشترکہ منصوبے کے تحت معدین باکسائٹ اینڈ المونیم کمپنی اور معدین المونیم کمپنی میں تقریباً 25 فیصد حصہ لیا۔
اس منصوبے میں وسطی سعودی عرب میں واقع باکسائٹ کی کان شامل بھی ہے جو ریل کے ذریعے مملکت کے خلیجی ساحل پر موجود ریفائننگ فیکٹری سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ کان ہر سال سات لاکھ 40 ہزار میٹرک ٹن المونیم کی پیداوار کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اس کے بعد 2013 میں امریکہ کی فاسفیٹ، کھاد اور جانوروں کے لیے پوٹیش فراہم کرنے والی دا موزیک کمپنی نے آٹھ ارب ڈالر کے معدین واعد شمال فرٹیلائزر پروڈکشن کمپلکس میں 25 فیصد سٹیک حاصل کیا۔ یہ کمپلیکس مملکت کے شمالی صوبے میں واقع ہے۔
سعودی بیسک انڈسٹریز کارپوریشن یا سابک نے بھی اس کاروبار میں 15 فیصد سٹیک حاصل کیا۔
جس کے بعد وہ دنیا کی سب سے بڑی فاسفیٹ بنانے کی مشترکہ فیکٹری بنی۔
کینیڈا کی بارک گولڈ کارپوریشن 13 ممالک میں سونے اور تانبے کی کان کنی کرتی ہے اور اس کا 2020 میں 12.6 ارب ڈالر کاروباری منافع تھا۔ اس کمپنی نے 2014 میں معدین بارک کاپر کمپنی کے 50 فیصد شیئرز حاصل کیے۔
اس کے نتیجے میں بننے والی تانبے کی کان اور پلانٹ جبل سید ہے، جو کہ مدینہ سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کی پیداواری صلاحیت سالانہ 45 ہزار سے 60 ہزار ٹن تانبہ ہے۔
جون 2020 میں مملکت میں کان کنی کا نیا قانون منظور ہوا تھا، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں تیزی کو فروغ ملا ہے۔
اس قانون کی منظوری کے بعد سے حکومت کو بین الاقوامی کان کنی کے آپریٹرز کی جانب سے لائسنسنگ کی ڈیڑھ ہزار درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ آپریٹرز کے لیے منظوری اب سالوں کے بجائے مہینوں میں دی جائے گی۔
سعودی عرب کے نائب وزیر برائے کان کنی خالد المدیفر کا کہنا ہے کہ مملکت میں کان کنی کی سرمایہ کاری کے 45.3 سے 47.96 ارب ڈالر اگلی دہائی میں 150 فیصد سے بڑھ جائیں گے۔