خواتین کے مقابلے میں مرد ووٹرز کی تعداد زیادہ، پنجاب سب سے آگے
خواتین کے مقابلے میں مرد ووٹرز کی تعداد زیادہ، پنجاب سب سے آگے
منگل 18 جنوری 2022 17:52
پنجاب میں خواتین ووٹرز کے مقابلے میں 62 لاکھ سے زائد مرد ووٹرز زیادہ ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کو بتایا ہے کہ ملک بھر قومی اسمبلی کے 90 حلقوں میں مرد ووٹرز کی تعداد خواتین کے مقابلے میں 10 فیصد سے زیادہ ہے۔
منگل کو الیکشن حکام کی جانب سے کمیٹی کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ ’اس وقت الیکشن کمیشن کی ووٹر فہرستوں کے مطابق رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 12 کروڑ 13 لاکھ 62 ہزار 748 ہے۔ جن میں مرد ووٹرز کی تعداد چھ کروڑ 65 لاکھ 66 ہزار 842 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد پانچ کروڑ 47 لاکھ 95 ہزار 906 ہے۔‘
اس طرح ملک میں خواتین کے مقابلے میں ایک کروڑ 17 لاکھ 70 ہزار 936 مرد ووٹر زیادہ ہیں۔
صوبہ پنجاب صنفی تناسب کے اس فرق میں دوسرے صوبوں سے آگے ہے، جہاں کُل ووٹرز کی تعداد سات کروڑ سے زائد ہے۔
پنجاب میں مرد اور خواتین ووٹرز کے تناسب کے لحاظ سے باقی صوبوں کے مقابلے میں فرق کافی زیادہ ہے۔ یہاں خواتین ووٹرز کے مقابلے میں 62 لاکھ سے زائد مرد ووٹرز زیادہ ہیں۔
صوبہ سندھ میں کل ووٹرز کی تعداد دو کروڑ 55 لاکھ 84 ہزار سے زائد ہے یہاں خواتین کے مقابلے میں مرد ووٹرز کی تعداد میں 25 لاکھ کا فرق ہے۔
خیبر پختونخوا میں کل ووٹرز دو کروڑ 73 لاکھ ہیں جن میں 23 لاکھ مرد خواتین سے زائد ہیں۔
اس طرح بلوچستان میں کل ووٹرز کی تعداد 50 لاکھ ہے جس میں سے 28 لاکھ سے زائد مرد اور 21 لاکھ سے زائد عورتیں ہیں۔ یہ فرق کم و بیش سات لاکھ بنتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ضلع وار دیکھا جائے تو خیبر پختونخوا کے 30 اضلاع، بلوچستان کے 24 اضلاع، پنجاب کے 19 اضلاع اور سندھ کے 14 اضلاع میں خواتین ووٹرز مقابلے میں مرد ووٹرز کی تعداد 10 فیصد زیادہ ہے۔
ان اعداد و شمار پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’پڑھے لکھے پنجاب میں صنفی فرق سب سے زیادہ ہے جو حیران کن ہے۔‘
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے ووٹر لسٹوں پر اعتراض اٹھایا کہ بلوچستان میں ووٹر لسٹیں ٹھیک طریقے سے بنائی نہیں جاتیں۔ بلوچستان میں خواتین کو ووٹر لسٹوں میں شامل نہیں کیا جاتا کیونکہ ان کے شناختی کارڈ ہی نہیں بنائے جا رہے۔
جس پر الیکشن کمیشن حکام نے بتایا کہ ’ہم نے گھر گھر جا کر ووٹر لسٹوں میں ووٹرز کا اندراج کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو برسوں میں مجموعی طور پر 56 لاکھ 13 ہزار 995 نئے ووٹرز کا اندراج ممکن ہوا، جن میں پہلی دفعہ مردوں کے مقابلے میں خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن زیادہ رہی۔ دو سال میں 31 لاکھ 28 ہزار خواتین اور 24 لاکھ 25 ہزار مرد ووٹرز کی رجسٹریشن کی گئی ہے۔‘
اس سوال پر کہ الیکشن کمیشن خواتین ووٹرز کی تعداد میں اضافے کے لیے کیا اقدامات کر رہا ہے؟ الیکشن کمیشن حکام نے بتایا کہ ’الیکشن کمیشن نے ملک کے 20 اضلاع کے 230 شماریاتی بلاکس میں پائلٹ پروجیکٹ کے تحت سروے کرایا تاکہ ووٹرز فہرستوں میں صنفی فرق کا جائزہ لیا جا سکے۔ جس کی سفارشات کی روشنی میں ایک ایکشن پلان ترتیب دیا گیا ہے جس پر عمل درآمد جاری ہے۔‘
’اس ایکشن پلان کے تحت نہ صرف متعلقہ اداروں کی استعداد کار میں اضافہ کیا گیا بلکہ ان اداروں کو ذمہ داریاں اور ٹائم لائن بھی فراہم کی گئی جس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر ان اضلاع میں جہاں مرد و خواتین ووٹرز کے درمیان صنفی فرق زیادہ ہے، وہاں ووٹرز کے اندراج کے لیے آگاہی مہم بھی چلائی گئی ہیں۔‘
الیکشن کمیشن نے تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بھی ہدایات جاری کی ہیں کہ داخل ہونے والے طلبا و طالبات کے لیے شناختی کارڈ کی شرط لازمی قرار دی جائے تاکہ نوجوان طلبا بالخصوص طالبات ووٹر فہرست میں شامل ہو سکیں۔
ووٹرز فہرستوں میں صنفی فرق کو کم کرنے کے لیے حکومتی سطح پر کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں اس حوالے سے وفاقی وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’اس مقصد کے لیے ہمارے سامنے رول ماڈل وہ خواتین ہیں جو براہ راست انتخابات لڑ کر اسمبلی پہنچتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو تجویز کیا ہے کہ وہ خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن کے لیے ان کی خدمات حاصل کرے اور انھیں آگاہی مہمات میں شامل کیا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’خواتین کے لیے مخصوص نشستیں بھی اسی لیے رکھی گئی تھیں کہ فیصلہ سازی میں خواتین کو شامل کیا جائے اور یہ ایک عارضی انتظام تھا۔ ہمیں بالآخر خواتین کے براہ راست الیکشن کی طرف ہی جانا ہے اور اگر خواتین ارکان اسمبلی اپنے اپنے علاقوں میں خواتین کے ووٹرز رجسٹرڈ کروائیں گی تو اس کا فائدہ بھی انہیں ہی ہوگا۔‘