لاہور ایک تاریخی شہر ہے اس بات سے تو انکار ممکن نہیں۔ لاہور کو قدیم اور تاریخی کیا بناتا ہے؟ یقینا وہ ادوار جو راوی کے کنارے بسنے والے اس شہر نے دیکھے، چاہے وہ تغلق ہوں، مغل، رنجیت سنگھ یا پھر برطانوی راج، یہ شہر اپنے اندر ان گنت ان کہی کہانیاں آج بھی لیے کھڑا ہے۔
لاہور شہر کی انہی کہانیوں میں سے ایک کہانی ٹولِنٹن مارکیٹ کی بھی ہے۔ پرانی اور نئی انارکلی کے سنگم پر واقع لاہور کے مال روڈ پر عجائب گھر کے پہلو میں واقع اینگلو طرز تعمیر کی یہ عمارت دلکش تو ہے ہی لیکن اس شہر کو نئی پہچان دینے میں بھی اس کا بڑا کردار ہے۔
آج کل اسی تاریخی ٹولِنٹن مارکیٹ کی ملکیت کا جھگڑا چل رہا ہے۔ چونکہ ملکیت کے دعوے دار دونوں سرکاری ادارے ہیں اس لیے دونوں ہی اس پر کھل کر بولنے کو تیار نہیں۔
مزید پڑھیں
-
سندھ کی شکست کی کہانی سناتا میدانNode ID: 426441
-
لاہور شاہی قلعہ میں نصب مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ توڑ دیا گیاNode ID: 592111
-
برطانوی راج کے وہ سپاہی جن کی پینشن آج بھی پاکستان میں آتی ہےNode ID: 639781
اس وقت اس عمارت کو پنجاب حکومت نے ایک حکم نامے کے ذریعے نیشنل کالج آف آرٹس یونیورسٹی کو دے دیا ہے۔ اس سے پہلے یہ لاہور عجائب گھر کی ملکیت چلا آرہا تھا۔
اردو نیوز کو دستیاب دستاویزات کے مطابق سال 2004 میں اس عمارت کو بحالی کے بعد لاہور کے عجائب گھر کو دے دیا گیا تھا۔ جبکہ سال 2019 میں موجودہ حکومت نے اسے این سی اے کے حوالے کر دیا ہے۔
این سی اے کی طرف سے جب اس تاریخی عمارت میں غسل خانے بنانے کا کام شروع کیا گیا تو لاہور عجائب گھر کی انتظامیہ عدالت سے حکم امتناعی لے کر آ گئی جو کہ بعد ازاں خارج کر دیا گیا۔ اب این سی اے اس عمارت کو نمائشی ہال کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور اس کی مرمت بھی ساتھ ساتھ کی جا رہی ہے۔
البتہ لاہور عجائب گھر کی انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ اس عمارت پر ان کا حق ہے۔ تاہم اس حق کے لیے ابھی وہ کھل کر بات کرنے کو تیار نہیں۔

ٹولِنٹن مارکیٹ ہے کس کی؟
نیشنل کالج آف آرٹس کے سابق استاد، تاریخ دان اور اس عمارت کو محفوظ بنانے کے لیے ایک طویل جدوجہد کرنے والے ڈاکٹراعجاز انور سمجھتے ہیں کہ یہ عمارت حقیقت میں کسی کی ملکیت نہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ’اس وقت جو دو دعویدار ہیں حقیقت میں عجائب گھر اور آرٹس سکول دونوں کی پیدائش اس عمارت سے ہوئی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’1864 میں جب یہ عمارت حکومت برطانیہ نے تعمیر کی تو اس وقت اس کا مقصد ایک صنعتی نمائش کا تھا۔ کیونکہ یوروپ میں صنعتی انقلاب کی داغ بیل پڑ چکی تھی۔ اور یہاں پر ٹیلنٹ کو ابھارنے کے لیے ایک عمارت بنائی گئی جہاں شمالی ہندوستان سے تعلق رکھنے والے مختلف کاریگروں نے یہاں بیٹھ کر اپنا سامان تیار کرنا شروع کیا۔ یعنی فیکٹری کی فیکٹری اور نمائش کی نمائش۔‘
ڈاکٹر اعجاز انور بتاتے ہیں کہ بعد ازاں یہیں سے میو سکول آف آرٹس (موجودہ این سی اے) اور لاہور سینٹرل میوزیم بنے۔ ابتدا میں یہ ایک عمارت میں ہوتے تھے بیسویں صدی کے آغاز میں جب دونوں کی نئی عمارتیں بن گئیں تو عجائب گھر اور سکول موجودہ عمارتوں میں منتقل ہوگئے۔ تاہم انتظامی طور پر ان دونوں کا سربراہ ایک ہی ہوتا تھا۔
ٹولِنٹن مارکیٹ کا کیا بنا؟
عجائب گھر اور آرٹس سکول کی اپنی الگ الگ عمارتوں میں منتقل ہونے کے بعد نمائش کی عمارت خالی ہو گئی۔ ڈاکٹر اعجاز انور کے مطابق یہیں سے لاہور کی سب سے پہلی بڑی سپر مارکیٹ کا آغاز ہوتا ہے۔
’یہ عمارت خالی رہنے کی وجہ سے خستہ حال ہو چکی تھی اس وقت یہاں کے چیف سیکریٹری ایس پی ٹولِنٹن نے اس کو مارکیٹ بنانے کا فیصلہ کیا اور اس کی تعمیر نو سرگنگا رام نے کی اور اس کو دوبارہ قابل استعمال بنا دیا اور اس کو باقاعدہ مارکیٹ کی شکل دے دی گئی۔ اس کا نام بھی ٹولِنٹن مارکیٹ رکھ دیا گیا۔‘

بیسویں صدی کے اوائل سے آخر تک یعنی 1994 تک یہ عمارت ایک مارکیٹ کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ ڈاکٹر اعجاز انور بتاتے ہیں کہ ’اس کے مغربی حصے میں مچھلی اور چھوٹے گوشت کا کاروبار تھا، مشرق کی طرف سبزی اور پھلوں کی دکانیں تھیں، حاجی فضل دین یہاں کے سب سے بڑے کاروباری تھے ان کی پانچ پشتوں نے یہاں کاروبار کیا۔ درمیان کے حصے میں ڈبل روٹیاں بعد میں برگر وغیرہ بھی آ گئے۔ شمالی حصے میں ڈیجیرز ملک بار تھی۔ جو لاہور کی پہلی دودھ کی دکان تھی اس کے ساتھ کیپری ریستوران تھا۔ جبکہ ایک طرف الحمرا اور دوسری طرف الفتح سٹور تھے۔ اس میں شکاریوں کے لیے عام سے ایمونیشن کا سٹور بھی تھا۔ یہ ایک قسم کی سپر مارکیٹ تھی۔ ایک چھت کے نیچے سب کچھ مل جاتا تھا۔ سپر مارکیٹ کا آئیڈیا بہت پرانا ہے۔ اسی دور میں عرب، ترکی اور ایران میں بھی چھتی ہوئی مارکیٹیں تھیں۔ سپر مارکیٹ کا تصور مشرق سے مغرب کی طرف گیا۔‘
جہاں پر ٹولِنٹن مارکیٹ کی عمارت ہے یہ علاقہ لاہور کا سینٹر کہلاتا تھا اور اس کا نام ڈونلڈ ٹاؤن تھا۔ یہ ٹولِنٹن مارکیٹ سے ریگل چوک تک پھیلا ہوا تھا اور بعد ازاں اس میں کئی سٹور اور بن گئے۔ صاحبوں اور بڑے سرکاری بابو یہیں سے خرید و فروخت کرتے تھے یہاں کے دکان دار اور خریدار دونوں ہی عام افراد نہیں ہوا کرتے تھے۔ ٹولِنٹن مارکیٹ کا کل رقبہ 17 کنال اور دس مرلے ہے۔
ڈاکٹر اعجاز انور بتاتے ہیں کہ اس جگہ پر قبضے پر بڑی بڑی کوششیں ہوئیں۔ ’چورانوے کے بعد جب یہاں سے تمام دکانداروں کو جیل روڈ پر ایک نئی ٹولِنٹن مارکیٹ بنا کر راتوں رات یہاں سے نکال دیا گیا تو اس پر بڑے لوگوں کی نظر تھی۔ ہم نے کئی سال جدوجہد کی۔ فاروق لغاری کو خط لکھا اور بالاخر اس کو بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نے ضلعی انتظامیہ کے تمام دفاتر چھان مارے ہر ادارہ دیکھا۔ ٹولِنٹن مارکیٹ کسی کی ملکیت نہیں۔ اس کے کئی کاغذات نہیں۔ 2004 میں ایک نوٹی فیکشن کے ذریعے پہلی بار حکومت نے اس کو عجائب گھر کو دے دیا۔‘
