فیصل واوڈا نے گذشتہ روز الیکشن کمیشن کے نااہلی کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصل واوڈا کی الیکشن کمیشن سے تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست مسترد کر دی۔
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے رہنما فیصل واوڈا کی نااہلی کے خلاف درخواست کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی اور اس حوالے سے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
فیصلے کے مطابق ’طویل عرصہ تک الیکشن کمیشن اور کورٹ کے سامنے فیصل واوڈا تاخیر کرتے رہے، فیصل واوڈا نے شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ جمع کرانے سے بھی انکار کیا۔‘
عدالت کے مطابق ’فیصل واوڈا کی ذمہ داری تھی کہ مجازاتھارٹی سے دہری شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ پیش کرکے اپنی نیک نیتی ثابت کرتے، انہوں نے نااہلی کیس میں کارروائی سے بچنے کے لیے استعفیٰ دیا۔‘
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’کمیشن کی تحقیقات اور فیصل واوڈا کے طرز عمل سے ثابت ہوا جمع کرایا گیا حلف نامہ جھوٹا تھا، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کا الیکشن کمیشن اور یہ عدالت پابند ہیں، پٹیشنر کا اپنا کنڈکٹ اس کی نااہلی کا باعث بنا، افسوس کے ساتھ کہیں گے کہ اس کے نتائج کے فیصل واوڈا خود ذمہ دار ہیں۔‘
قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد کیس کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
دوران سماعت فیصل واوڈا کے وکیل وسیم سجاد نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فیصل واوڈا کو تاحیات نااہل قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں۔ اس کے پاس اختیار نہیں تھا کہ وہ نااہل قرار دیتا۔
’الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا فیصلہ نہیں سنا سکتا۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بیان حلفی سپریم کورٹ کے آرڈر کی روشنی میں دائر کیا گیا تھا۔
جواب میں پی ٹی آئی رہنما کے وکیل نے کہا کہ جون 2018 میں بیان حلفی جمع کرایا گیا تھا۔
جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ ٹیکنیکل گراؤنڈز پر بات کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن نے کہاں کوئی غلطی کی ہے؟
انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے خود ایک آرڈر جاری کیا اور بیان حلفی کو اس کا حصہ بنایا۔‘
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ بیان حلفی اگر غلط نکلا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی نیک نیتی بھی بتائیں کہ جب بیان حلفی دائر کیا تو دہری شہریت نہیں تھی۔
انہوں نے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ امریکی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ دیا یا نہیں؟ اس کی تاریخ کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کی سینیٹرشپ کا نوٹیفیکیشن بھی واپس لے لیا تھا۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا جھوٹے بیان حلفی کی انکوائری سپریم کورٹ کرتا؟
’سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا آرڈر تھا کہ بیان حلفی کے نتائج ہوں گے۔ کیا کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے سے قبل شہریت چھوڑی تھی یا نہیں؟‘
اس پر فیصل واوڈا کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جھوٹے بیان حلفی کے لیے توہین عدالت کا لفظ نہیں لکھا گیا۔
چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ ’سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ قانون ہے جس میں کئی قانون سازوں کو نااہل بھی کیا گیا۔‘
انہوں نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا نے گذشتہ روز الیکشن کمیشن کے نااہلی کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
گذشتہ ہفتے نو فروری کو الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کو جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے پر نااہل قرار دیا تھا اور ان کی سینیٹرشپ کا نوٹیفیکیشن بھی واپس لے لیا تھا۔