Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئے الیکٹرونک کرائمز آرڈیننس سے قانون میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں؟

مقدمے کا فیصلہ جلد از جلد کرنا ہوگا تاہم زیادہ سے زیادہ مدت چھ ماہ رکھی گئی ہے (فوٹو: اے پی پی)
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے امتناع الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2016 میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کر دیا ہے۔ جس کے تحت کسی بھی شخص، کمپنی، جماعت، تنظیم، اتھارٹی اور حکومت کے قائم کردہ کسی بھی ادارے کی تضحیک قابلِ دست اندازی پولیس جرم قرار دے دیا گیا ہے۔  
آرڈیننس کے تحت امتناع الیکٹرونک کرائم ایکٹ 2016 میں چار بنیادی ترامیم کی گئی ہیں جبکہ ایک مکمل نیا سیکشن شامل کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ شقوں میں ترمیم کی گئی ہیں۔
آرڈیننس کو ’امتناع الیکٹرونک کرائمز آرڈیننس 2022‘ کا نام دیا گیا ہے جو فوری طور پر نافذالعمل ہوچکا ہے۔
پیکا آرڈیننس کے سیکشن دو میں فرد کی نئی تعریف شامل کرنے کے نئی شق شامل کی گئی ہے۔ جس کے تحت کسی بھی شخص سے مراد کمپنی، جماعت، تنظیم، اتھارٹی اور حکومت کا قائم کردہ کوئی بھی ادارہ ہے۔  
آرڈیننس کے تحت الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2016 میں پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے۔ جس کے بعد ٹیلی وژن پر کسی بھی فرد کے بارے میں فیک نیوز یا تضحیک بھی الیکٹرونک کرائم کے زمرے میں آئے گی۔  
اسی طرح فیک نیوز دینے والے کو تین کے بجائے پانچ سال سزا ہوگی جبکہ ایسی کسی خبر کے خلاف اتھارٹی کو درخواست دینے کے لیے متاثرہ شخص کے بجائے کسی بھی فرد کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ مقدمہ درج کرا سکے گا۔  
نئے آرڈیننس کے تحت یہ جرم ناقابل ضمانت ہوگا۔
مقدمے کا فیصلہ جلد از جلد کرنا ہوگا تاہم زیادہ سے زیادہ مدت چھ ماہ رکھی گئی ہے۔ ٹرائل کورٹ ہر ماہ کیس کی پیش رفت کے بارے میں رپورٹ متعلقہ ہائی کورٹ میں جمع کرائے گی اور کیس میں تاخیر کی وجوہات اور رکاوٹوں کے بارے میں آگاہ کرے گی۔  
ٹرائل کورٹ یہ رپورٹ اسلام آباد کی ہونے کی صورت میں سیکرٹری قانون اور کسی بھی صوبے سے متعلق کیس کی صورت میں سیکرٹری محکمہ پروسیکیوشن، پروسیکیوٹر جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو بھی رپورٹ کی کاپیاں فراہم کرنے کی پابند ہوگی۔  
ہائی کورٹ کو اگر لگے کہ کیس جلد نمٹانے میں رکاوٹیں ہیں تو رکاوٹیں دور کرنے کا کہے گی۔
وفاقی صوبائی حکومتیں اور افسران کو رکاوٹیں دور کرنے کا کہا جائے گا۔ ہر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور افسران کو ان کیسز کے لیے نامزد کرے گا۔  
دوسری جانب صدرمملکت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس بھی جاری کردیا ہے۔ جس کے تحت تمام اسمبلیوں، سینیٹ اور مقامی حکومتوں کے ممبران الیکشن مہم کے دوران تقریر کرسکیں گے۔ کوئی بھی پبلک آفس ہولڈر اور منتخب نمائندے حلقے کا دورہ کرسکیں گے۔

مجوزہ قانون جمہوریت کے تقاضوں کے منافی ہے: انسانی حقوق کمیشن

قبل ازیں اتوار ہی کو پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) نے سوشل میڈیا پر حکومت اور ریاست پر تنقید کرنے کو ناقابل ضمانت جرم قرار دینے کے قانون کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اپنے آفیشل ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا تھا کہ ’ریاست پر آن لائن تنقید پر قید کی سزا کو دو سے بڑھا کر پانچ برس کرنے اور اسے ناقابل ضمانت جرم قرار دینے کا مجوزہ قانون جمہوریت کے منافی ہے۔‘

ایچ آر سی پی نے حکومت اور ریاست پر تنقید کرنے کو ناقابل ضمانت جرم قرار دینے کے قانون کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’(یہ مجوزہ قانون) حکومت اور ریاست سے اختلاف اور ان پر تنقید کرنے والی آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے استعمال ہو گا۔‘
انسانی حقوق کمیشن کے اس قانون سے متعلق تحفظات پر سوال کے جواب میں وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ ’ایچ آر سی پی نے اگر درست طرح اس مجوزہ قانون کو پڑھا ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی رائے پر نظرثانی کریں گے۔ ایچ آر سی پی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ فیک نیوز چلائیں اور اس پر سزا نہ ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر نیب یا کوئی اور محکمہ کسی کے خلاف کوئی الزام لگاتا ہے، وہ غلط ثابت ہوتا ہے تو بھی متاثرہ شخص عدالت میں جا سکتا ہے۔‘

شیئر: