Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میڈیا ایکشن کمیٹی کا نیا قانون واپس لینے تک حکومت سے بات چیت نہ کرنے کا اعلان

جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ کئی مثالیں موجود ہیں کہ وزارت اطلاعات بولنے کی آزادی کو مسخ کر رہی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے   حوالے سے وزارت اطلاعات کے ساتھ اجلاس  کو ڈرامہ قرار دینے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کردیا ہے۔
اجلاس سے واک آؤٹ کرنے کے بعد ایکشن کمیٹی کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ جب تک پیکا قانون میں کیے جانے والے حالیہ ڈریکیونین ترامیم کو واپس نہیں لیا جاتا وزارت اطلاعات کے ساتھ کوئی جات چیت نہیں ہوگی۔
خیال رہے پیکا کے نئے قانون کے خلاف جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے)، آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (اے پی این ایس)، کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) اور ایسوسی ایشن آف الیکڑونک میڈیا ایٹریٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز(ایمینڈ) کے نمائندے شامل ہیں۔
ایکشن کمیٹی کے کہنا تھا کہ وزارت اطلاعات کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے نام پر کھیل رہی ہے اور اس دوران ملک میں آزادی اظہار رائے کے خلاف آرڈیننسز جاری کیے جاتے ہیں اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ میڈیا کو انگیج کیا جارہا ہے۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا کہنا تھا کہ کئی مثالیں موجود ہیں کہ وزارت اطلاعات بولنے کی آزادی کو مسخ کر رہی ہے اور صحافیوں کے خبر دینے کے حق کو روک رہی ہے۔

جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطابق وزارت اطلاعات صحافت پر اثر انداز ہونے کے لیے  میڈیا کو مالی طور پر کمزور کررہی ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)

جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطابق وزارت اطلاعات صحافت پر اثر انداز ہونے کے لیے  میڈیا کو مالی طور پر کمزور کررہی ہے۔
بیان کے مطابق میڈیا برادری نے پہلے بھی خبردار کیا تھا اور وزیراعظم سے اپیل کی تھی کہ ایک خطرناک رحجان ابھر رہا ہے جو کہ حکومت، میڈیا اور میڈیا ورکرز کے درمیان فاصلے پیدا کر رہا ہے۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا مزید کہنا تھا کہ تمام میڈیا تنظیمیں آزادی اظہار رائے کے تحفظ اور اطلاعات تک عوام کے رسائی کے حق کے تحفظ کے لیے متحد ہیں۔
خیال رہے جائنٹ ایکش کمیٹی نے اتوار کو ایک  بیان میں پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) آرڈیننس کو مسترد کیا تھا۔

یوسف رضا گیلانی کا پیکا قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان

دوسری جانب سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی نے پیکا قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پیکا قانون مسترد کرتے ہیں۔ ’17 فروری کو سینیٹ کا اجلاس تھا اور 18 فروری کو آرڈیننس پیش کردیا، یہ قوانین بنا کر اپنے مخالفین کو ڈرانا چاہتے ہیں۔‘
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے بھی پیکا قانون کو مسترد کر دیا ہے۔
پی ڈی ایم کے ترجمان حافظ حمداللہ کا کہنا ہے کہ پیکا صدارتی آرڈیننس ایک کالاقانون ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی جمہوریت کے منافی اور آمریت کی علامت ہے۔

پیکا ترمیمی آرڈیننس ہے کیا؟

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اتوار کو امتناع الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2016 میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کر دیا تھا جس کے تحت کسی بھی شخص، کمپنی، جماعت، تنظیم، اتھارٹی اور حکومت کے قائم کردہ کسی بھی ادارے کی تضحیک قابلِ دست اندازی پولیس جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ 

صدر مملکت نے اتوار کو امتناع الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2016 میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کر دیا تھا۔ (فوٹو: اے پی پی)

آرڈیننس کے تحت امتناع الیکٹرونک کرائم ایکٹ 2016 میں چار بنیادی ترامیم کی گئی ہیں جبکہ ایک مکمل نیا سیکشن شامل کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ شقوں میں ترمیم کی گئی ہیں۔
آرڈیننس کو ’امتناع الیکٹرونک کرائمز آرڈیننس 2022‘ کا نام دیا گیا ہے جو فوری طور پر نافذالعمل ہوچکا ہے۔
پیکا آرڈیننس کے سیکشن دو میں فرد کی نئی تعریف شامل کرنے کے نئی شق شامل کی گئی ہے۔ جس کے تحت کسی بھی شخص سے مراد کمپنی، جماعت، تنظیم، اتھارٹی اور حکومت کا قائم کردہ کوئی بھی ادارہ ہے۔ 
آرڈیننس کے تحت الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2016 میں پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے۔ جس کے بعد ٹیلی وژن پر کسی بھی فرد کے بارے میں فیک نیوز یا تضحیک بھی الیکٹرونک کرائم کے زمرے میں آئے گی۔ 
اسی طرح فیک نیوز دینے والے کو تین کے بجائے پانچ سال سزا ہوگی جبکہ ایسی کسی خبر کے خلاف اتھارٹی کو درخواست دینے کے لیے متاثرہ شخص کے بجائے کسی بھی فرد کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ مقدمہ درج کرا سکے گا۔  نئے آرڈیننس کے تحت یہ جرم ناقابل ضمانت ہوگا۔
مقدمے کا فیصلہ جلد از جلد کرنا ہوگا تاہم زیادہ سے زیادہ مدت چھ ماہ رکھی گئی ہے۔ ٹرائل کورٹ ہر ماہ کیس کی پیش رفت کے بارے میں رپورٹ متعلقہ ہائی کورٹ میں جمع کرائے گی اور کیس میں تاخیر کی وجوہات اور رکاوٹوں کے بارے میں آگاہ کرے گی۔ 

ایچ آر سی پی نے حکومت اور ریاست پر تنقید کرنے کو ناقابل ضمانت جرم قرار دینے کے قانون کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ٹرائل کورٹ یہ رپورٹ اسلام آباد کی ہونے کی صورت میں سیکرٹری قانون اور کسی بھی صوبے سے متعلق کیس کی صورت میں سیکرٹری محکمہ پروسیکیوشن، پروسیکیوٹر جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو بھی رپورٹ کی کاپیاں فراہم کرنے کی پابند ہوگی۔ 

قانون جمہوریت کے تقاضوں کے منافی ہے: انسانی حقوق کمیشن

 اتوار کو پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) نے سوشل میڈیا پر حکومت اور ریاست پر تنقید کرنے کو ناقابل ضمانت جرم قرار دینے کے قانون کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دیا تھا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اپنے آفیشل ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا تھا کہ ’ریاست پر آن لائن تنقید پر قید کی سزا کو دو سے بڑھا کر پانچ برس کرنے اور اسے ناقابل ضمانت جرم قرار دینے کا قانون جمہوریت کے منافی ہے۔‘
’یہ  قانون حکومت اور ریاست سے اختلاف اور ان پر تنقید کرنے والی آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے استعمال ہو گا۔‘

شیئر: