Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روسی فوج کا چرنوبل ایٹمی پلانٹ پر قبضہ، جی سیون ممالک کی ماسکو پر پابندیاں

یوکرین نے اعلان کیا ہے کہ روسی فوج نے اپنے حملے کے پہلے دن ’شدید‘ لڑائی کے بعد چرنوبل جوہری پاور پلانٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یوکرین کی صدارتی انتظامیہ کے سربراہ کے مشیر میخائیلو پوڈولیاک نے کہا ہے کہ ’اس سمت میں روس کے غیرمنطقی حملے کے بعد، یہ کہنا ناممکن ہے کہ چرنوبل جوہری پاور پلانٹ محفوظ ہے۔ یہ آج یورپ کے لیے سب سے سنگین خطرات میں سے ایک ہے۔‘
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے روس کے خلاف ’تباہ کن‘ مغربی پابندیوں کا اعلان کیا ہے اور جلد ہی وہ یوکرین پر ہونے والے حملے پر امریکی عوام سے خطاب کرنے والے ہیں۔
ایک گھنٹہ اور 10 منٹ تک جاری رہنے والی ورچوئل میٹنگ کے بعد جی سیون گروپ، جس میں برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکہ شامل ہیں، نے کہا کہ ’وہ قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام کو درپیش روسی خطرے کے خلاف مضبوطی سے کھڑے ہیں۔‘
جو بائیڈن نے ٹویٹ کیا کہ جی سیون رہنماؤں نے ’پابندیوں کے تباہ کن پیکجز اور روس کو جوابدہ بنانے کے لیے دیگر اقتصادی اقدامات پر آگے بڑھنے پر اتفاق کیا۔ ہم یوکرین کے بہادر لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
اس کے کچھ دیر بعد ہی برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے روس پر پابندیوں کو اعلان کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پابندیاں مستقبل میں طویل عرصے تک‘ روسی معیشت کو تنزلی کا شکار کریں گی۔ بورس جانسن نے روسی صدر کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
جبکہ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے ماسکو کے یوکرین پر حملے کے جواب میں 58 روسی افراد اور اداروں کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا۔
قبل ازیں روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے یوکرین میں فوجی آپریشن کے اعلان کے بعد روسی وزارت دفاع نے یوکرین کی ایئر بیس اور اس کا فضائی دفاعی نظام تباہ کرنے کا دعویٰ کیا جبکہ دارالحکومت کیف سمیت متعدد شہروں میں دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔
اے ایف پی کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے علاقائی امن کے لیے ’بڑا دھچکہ‘ قرار دیا ہے۔
جمعرات کو ٹی وی خطاب میں انہوں نے کہا کہ ’ہم روس کے فوجی آپریشن کو رد کرتے ہیں۔ یہ علاقائی امن و استحکام کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔‘
چین نے روس کے وزیر خارجہ سے کہا ہے کہ وہ یوکرین کے معاملے میں ماسکو کی ’جائز تشویش‘ کو سمجھتا ہے۔
ادھر اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو روسی حملے کے بعد حکام نے بتایا کہ یوکرین کے علاقے اوڈیشا کے قریب 18 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے کہا ہے کہ صدر پوتن کے اعلان کے بعد روسی افواج نے یوکرین کے کئی شہروں پر میزائل داغے ہیں جبکہ یوکرین کے جنوبی ساحل کے قریب فوجی بھی اتارے گئے ہیں۔
یوکرینی دارالحکومت میں افراتفری
روئٹرز کے مطابق یوکرین کے دارالحکومت کیف میں افراتفری دیکھی گئی ہے۔ شہری بینکوں سے رقوم نکالنے اور کھانے پینے کی اشیا جمع کرنے لیے کافی مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ شہر کی مغربی جانب جانے والی سڑکوں پر ٹریفک مکمل طور پر جام ہو گئی تھی۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق یوکرین نے اپنی فضائی حدود کو ’شدید خطرے‘ کے پیش نظر مسافر پروازوں کے لیے بند کر دیا ہے جبکہ یورپ کی پروازوں کی نگرانی کرنے والے اداروں نے روس اور بیلا روس کے سرحدی علاقوں کی جانب پروازوں کو وارننگ جاری کی ہے۔

دمترو کلیبا نے جمعرات کو کہا  ہے کہ ’پوتن نے یوکرین پر ایک بڑا حملہ کر دیا ہے۔‘ (فوٹو اے ایف پی)

بائیڈن کا یوکرینی صدر سے ٹیلی فونک رابطہ
امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اس حملے کے نتیجے میں جو تباہی ہو گی اس کا واحد ذمہ دار روس ہو گا۔ اور امریکہ اور اس کے اتحادی اس کا جواب یکجا ہو کر فیصلہ کن انداز میں دیں گے۔‘
’یہ جارحیت ہے ہم اپنا دفاع کریں گے‘
یوکرین کے وزیر خارجہ دمترو کلیبا نے جمعرات کو کہا  ہے کہ ’پوتن نے یوکرین پر ایک بڑا حملہ کر دیا ہے۔ یوکرین کے پرامن شہر س وقت حملے کی زد میں ہیں۔‘
’یہ جارحیت پر مبنی جنگ تھی۔یوکرین اپنا دفاع کرے گا اور فتح اسی کی  ہو گی۔ دنیا ہر صورت میں پوتن کو روکے ، یہ عمل کا وقت ہے۔‘
صدر ولادیمیر پوتن نے جمعرات کی صبح ٹیلی وژن پر اپنے ایک مختصر بیان میں حملے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘
صدر پوتن نے یوکرین کی فوج کو ہتھیار ڈالنے کے لیے بھی کہا ہے۔
واضح رہے کہ روسی صدر کا یہ اعلان کریملین کی جانب سے جاری کیے گئے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ مشرقی یوکرین کے باغی رہنماؤں نے حکومت کے خلاف ماسکو سے فوجی مدد مانگی ہے۔

یوکرینی صدر نے کہا کہ ’روس کے شہریوں سے یوکرین کے بارے میں غلط بیانی کی گئی۔‘ (فوٹو اے ایف پی)

اس کے ردعمل میں یوکرین کے صدر نے ولادیمیر زیلنسکی نے رات گئے جذباتی انداز میں روس سے اپیل کی کہ وہ’یورپ میں اس بڑی جنگ‘ کا حصہ نہ بنیں۔
یوکرینی صدر نے کہا کہ ’روس کے شہریوں سے یوکرین کے بارے میں غلط بیانی کی گئی ہے اور یہ کہ جنگ کا امکان بھی آپ ہی پر منحصر ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ جنگ کون روک سکتا ہے؟ ظاہر ہے لوگ ہی۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ آپ میں ہی موجود ہیں۔‘
’اقوام متحدہ جنگ روکنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے‘
ادھر اقوام متحدہ میں یوکرین کے نمائندے نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ ان کے ملک کے خلاف ’اس جنگ کو روکنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے۔‘
یوکرینی مندوب سرگی کیسلتسیا نے جمعرات کو رات ہونے والی اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی ایک میٹنگ میں کہا ہے کہ ‘یہ ان سب اداروں کو ذمہ داری ہے کہ وہ جنگ رکوائیں۔ صدر پوتن اور روسی وزیرخارجہ کو جارحیت سے روکیں۔‘
امن کو ایک موقع دیں: اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی سکیورٹی کونسل کے ایمرجنسی اجلاس میں رو سے براہ راست اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’مسٹر پوتن! اپنے فوجیوں کو یوکرین پر حملے سے روکیں، امن کو ایک موقع دیں۔ بہت اس پہلے ہی اموات کا شکار ہو چکے ہیں۔‘
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات ہی کو کہا کہ ’صدر پوتن کے اقدامات ٹھوس جواب کے متقاضی ہیں اور اسی لیے ہم روس پر مکمل طور پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔‘
بائیڈن نے روس کے ملٹری بینک، انویسٹمنٹ کمپنی وی ای بی اور روس کے دولت مند افراد کے خلاف ’مکمل بلاکنگ پابندیوں‘ کا اعلان کیا اور کہا کہ ہم روس کو مغرب کی جانب سے ہونے والی فناسنگ کا سلسلہ منقطع کر رہے ہیں۔
’ہم پابندیاں لگانے میں جارحیت کا مظاہرہ کریں گے اگر روس نے ایسا کیا۔‘
یاد رہے کہ اس سے قبل روس نے مشرقی یوکرین کے علیحدگی پسند علاقوں کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وہاں روسی فوج کو بطور ’امن مشن‘ تعینات کرنے کے لیے بھیج دی ہیں۔
پوتن کی جانب سے یوکرین میں خصوصی فوجی آپریشن کے اعلان کے بعد کئی مغربی ممالک سمیت جاپان نے بھی روسی بینکوں اور شخصیات سخت پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

شیئر: