Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تصویرِ کائنات کی رنگینی ،بقاء کی جنگ لڑنے پر مجبور

عورت کو سمجھنے کی بجائے مختلف الزامات سے نواز کر چپ کرا دیا جاتا ہے،وہ سو چتی رہ جا تی ہے کہ اپنے شعور میں چلنے والی آندھیوں کا رخ کس سمت موڑے

 تسنیم امجد ۔ ریاض

اگر انسان صرف روح اور بد ن کے مجموعے کا نام ہوتا تو پھر انسا ن اور حیوان میں کوئی فرق نہ ہوتا۔اشرف المخلوقا ت ہونے کا شرف انسان کو ہی ملا ہے۔ دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر اُس ہستی کے جذبات کی عکاسی کر رہی ہے جو اس دنیا میں آتے ہی ایک سوالیہ نشان بنا دی جاتی ہے ،باپ اور عزیز و اقارب کے ماتھے پر شکنیں اورآوازوں میں لرزش اس کے وجود کے بوجھ کی نشاندہی کرتی ہیں۔ آہ بیچاری عورت جو اپنے حقوق پرشکوہ کناں ہے۔ اس کی فریاد ہے کہ اس کے دین نے تو اسے عزت دی، احترام دیا پھر یہ دنیا والے اسکی توہین کیوںکرتے ہیں۔ محبت اور فرض کے خمیر سے گندھی ہوئی یہ ہستیاںمجبور اور بے زبان ہیں۔ ان کی باتوں کو کوئی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔عورت صرف ایک ہی زبان جانتی ہے اور وہ ہے قربانی کی۔یہ صنف نازک اولاد اور گھر کو قائم رکھنے کے لئے اپنا آپ مٹادیتی ہے۔ہوش سنبھالتے ہی ایک ہی گھر میں اس سے غیروں کا سا سلوک کیا جانے لگتا ہے۔ بھائی اور باپ اگر کوئی کھانے پینے کی چیز گھر لاتے ہیں تو انہی ہی پہلے دی جاتی ہے اور اگر بچ جائے تو انہیں مل جاتی ہے ورنہ یہ خود ہی صبر کر لیتی ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی عورت پھر وہی جد و جہد کر رہی ہے جو اس نے 1400 سال قبل کی تھی۔بظاہرمردوںکے شانہ بشانہ کام کر کے وہ اس بھول میں ہے کہ وہ حقوق یافتہ ہے، حقوق نسواں کے کھو کھلے نعرے مغرب کی تقلید ہیں جہاں یہ ایک فریب کے سوا کچھ نہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

 پابند رہ و رسم مجھے کرتے ہیں کچھ لوگ

 ٹوٹے گی رواجوں کی یہ زنجیر کہ میں ہوں

تم میرے ہنر کی نفی کرتے ہو تو کیا ہے

 گویا ہے مرے حرف کی توقیر کہ میں ہو ں

 فردا کا ہر اک خواب مری آنکھ میں ہر شب

اک روز اسے ہو نا ہے تعبیر کہ میں ہوں

میں ایک عورت ہوں۔ ہاں ایک عورت جو اپنے ماحول اور خواہشات کی یلغار سے نبردآزما ہو کر خاص بنناچاہتی ہے لیکن میرا تو ابھی ناکردہ قصور ہی معاف نہیں ہوا ۔کاش اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جاتا کہ عورت ہی قدرت کے مظاہر آشکار کرنے کا بہانہ بنی ہے۔

آپی طاہرہ کی بے بسی آج بھی اسی طرح یاد ہے جیسے کل کی بات ہو ۔وہ بیٹی کی پیدائش پر مجرم بنی شوہر اور ساس کی غصیلی نظروں کا سامنا کر رہی تھیں۔ ان کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے کچھ اورگہرے ہونے لگے تھے ۔ وہ بساط سے بڑھ کر کام کرتی تھیں۔ خود کو ان سب کے سامنے سگھڑ ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں تھیں۔ کسی کو احساس نہ تھا کہ انہیں کچھ آرام کی بھی ضرورت ہے ،کل ہی تووہ اسپتال سے لوٹی تھیں۔ کمر کے شدید درد کے باعث وہ بار بار بیٹھ رہی تھیں۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عورت کابچپن شکوک کی نذر ہوجاتا ہے ۔کیا کیا بتلائیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے کہ :

تم کو کیا خبر لوگو ! ایسی بے گنہ آنکھیں

 گھرکے کونوں کھدروں میں چھپ کے کتنا روتی ہیں

بابل کی دہلیز سے’’بہو‘‘ کا روپ بھی اس کے لئے چند دن کی تبدیلی یا خوشی لے کر آتا ہے۔

گز شتہ دنوں ایک خبر نظر سے گزری، ایک چند دن کی بہو کو مارنے کے بعد نعش گھر سے باہر پھینک دی گئی اور گھر والے خود فرار ہو گئے۔خیر اتنا تو رحم کیا کہ لاش کو گلنے سڑنے سے بچا لیا۔محلے والوں کی جانب سے یہ سن کر افسوس ہوا۔ پولیس بھی اس معاملے کو آسان لے رہی تھی ،سنا یہ کہ مک مکا ہو گیا تھا۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ مرد، عورت میں اپنے تمام مسائل کا حل تلاش کرتا ہے،ہر قسم کی ٹینشن کامداوا گھر کی چار دیواری میں ہے۔ کبھی ماں کو کھری کھری سنا کر اسکی دعاؤں میں ملاوٹ کا واویلاکرتا ہے اور کبھی بیوی کو مصیبت قرار دیتا ہے۔ اسکی معاشی اونچ نیچ کی وہی ذمہ دار ٹھہرا دی جاتی ہے۔شاعروں اور ادیبوں نے اسے کائنات کی خوش رنگی کا موجب قرار دیا تو یہ جھوم اٹھی اورلائقِ التفات بننے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، اپنے وجود کی اہمیت کااحساس دلایا لیکن پھر بھی اس پر ظلم ڈھائے گئے اور دلدہلا دینے وا لی داستانیں رقم کی گئیں۔

آج بھی عورت 80 فیصد سے زیادہ زیادتیوں کا شکارہوتی ہے۔اس نے اپنی تہذیب و روایات کے پر خچے اڑا کر معاشرے میں مقام بنانا چا ہا لیکن اس کے عوض وہ خالی ہاتھ رہی۔ قارئین ! آج عورت کوطرح طرح سے معا شر تی بگاڑ کی ذمہ دارقرار دیاجاتا ہے۔ اس معا شرے سے سوال یہ ہے کہ اسے اس مقام پر لانے والاکون ہے؟ کیا عورت پر زیادتی کا باب بند نہیں ہو سکتا؟ اسے اشتہاروں کی زینت بنانے کا کاروبار کب بند ہو گا؟ کیا تشہیر کا ذریعہ اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ابتدائے تاریخ اورلمحۂ موجودمیں فرق صرف اتنا ہے کہ اس دور میں وہ زندہ دفن کی جا تی تھی اورآج وہ سر ما یہ دارانہ معیشت کی مشینوں میں ذبح ہو رہی ہے۔تصویر کائنات کی یہ رنگینی ،آج بھی اپنے بقاء کی جنگ لڑنے پر مجبور ہے ۔

یہ حالات اسے کبھی کبھی خود سری پر بھی اُکساتے ہیں لیکن اسے سمجھنے کی بجائے مختلف الزامات سے نواز کر چپ کرا دیا جاتا ہے ۔وہ سو چتی رہ جا تی ہے کہ اپنے شعور میں چلنے والی آندھیوں کا رخ کس سمت موڑے۔

شیئر: