Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے ساحلوں میں شارک مچھلی کی نایاب نسل کا شکار

شارک کی یہ قسم گہرے سمندر میں پائی جاتی ہے۔ فوٹو: ڈبلیو ڈبلیو ایف
پاکستان کے صوبہ سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں آبی حیات کے لیے موثر حکمت عملی نہ ہونے کے باعث کئی نایاب مچھلیوں کا عام شکار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی نسل کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہے۔ 
ڈبلیو ڈبلیو ایف (پاکستان) کے تکنیکی مشیر معظم خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ منگل کو صوبہ بلوچستان میں کنڈ ملیر ساحل کے قریب ماہی گیروں نے 200 کلو وزنی شارک مچھلی کی ’بگ نوز‘ نامی نایاب قسم کا شکار کیا تھا۔ عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این نے اس مچھلی کو دنیا میں معدوم ہوتی ہوئی مچھلیوں کی نسل میں شامل کیا ہے۔ 
معظم خان کے مطابق کئی سالوں بعد اتنی بڑی شارک مچھلی سمندر میں نمودار ہوئی۔ پاکستان میں کئی اقسام کی شارک کے شکار پر پابندی ہے لیکن اس نسل پر اب تک پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔
معظم خان کے مطابق یہ شارک پاکستانی ساحل سے لے کر 800 میٹرز کی دوری تک گہرے سمندر میں پائی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ سمندر کی تہہ میں رہنے والی مچھلی ہے، پوری دنیا کے گرم اور ٹروپیکل واٹرز اس کا مسکن ہیں، جن میں بحرا وقیانوس، بحرالکاہل اور بحرہند شامل ہیں۔
معظم خان کا کہنا ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ لمبائی تقریباً 3 میٹر کی ہوتی ہے اور عموماً یہ 13 بچے دیتی ہے جبکہ اوسط بچوں کی تعداد 9 ہے۔
شارک کی اس قسم کو سندھی میں ہام اور بلوچی میں جگڑی ہام کہا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر مچھلی کی اس قسم  کو خطرے سے دو چار سمجھا جاتا ہے۔

شارک مچھلی کی قسم بگ نوز معدومیت کا شکار ہے۔ فوٹو: ڈبلیو ڈبلیو ایف

آئی یو سی این نے بھی بگ نوز شارک کو دنیا میں معدوم ہوتی ہوئی مچھلی قرار دیا ہے۔
تکنیکی مشیر ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان میں اس کے شکار پر کوئی پابندی نہیں ہے، تاہم اس کی معدومیت کے پیش نظر دنیا بھر میں اس کے تحفظ کے لیے اقدامات کے حوالے سے عالمی سطح پر تقاضا کیا جارہا ہے۔
بگ نوز شارک کا گوشت مقامی طور پر کھایا جاتا ہے اور پنکھ ہانگ کانگ کو برآمد کیا جاتا ہے جبکہ اس کے جگر کا تیل کشتیوں کے پیندے میں استعمال کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب دریائے سندھ سے مچھیروں نے المنظر کے مقام پر 55 کلو وزنی مچھلی پکڑی ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق یہ مچھلی گڈو بیراج اور سکھر بیراج کے درمیان پائی جاتی ہے۔ وزن کے حساب سے اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور عموماً دوا ساز کمپنیاں اس مچھلی کو دوائیاں بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں یہ مچھلی روسی ماہرین لے کر آئے تھے۔ 
محکمہ وائلڈ لائف کا کہنا ہے کہ مچھلی کا وزن 55 کلو سے زیادہ ہے۔ اس کو فوجی کھگا مچھلی کہا جاتا ہے۔ وائلڈ لائف حکام کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق اس مچھلی کا شکار جرم نہیں ہے۔

شیئر: