Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کے دوران کن ’ناراض دوستوں‘ کی واپسی متوقع؟

پیپلز پارٹی کا عوامی مارچ لاہور پہنچ کر ندیم افضل چن کی وکٹ گرا چکا ہے (فوٹو: فیس بک/ پی پی پی)
پاکستانی سیاست کے سرگرم کرداروں کی دوستیاں عموماً جماعتی بنیادوں پر نہیں ہوتیں بلکہ بظاہر سیاسی اختلافات رکھنے والے ایک دوسرے کے گہرے دوست بن جاتے ہیں اور پھر وہ دوستیاں اگلی نسل کو بھی منتقل ہوتی رہتی ہیں۔
خورشید شاہ اور رانا تنویر، قمر زمان کائرہ اور خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف اور الیاس بلور، شاہد خاقان عباسی اور نوید قمر، حیدر عباس رضوی اور حنیف عباسی ایسی مثالیں ہیں جو ایک دوسرے کے سیاسی مخالف ہیں لیکن بہترین دوست کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
2008 کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تشکیل پائی تو اس میں کچھ نئے چہرے بھی ایوان کی زینت بنے جن میں پنجاب سے ندیم افضل چن، کے پی کے سے فیصل کریم کنڈی اور نور عالم خان بہت جلد مقبول ہوئے۔ ایوان میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد ان تینوں کی دوستی اور محفلیں بھی مشہور ہوگئیں۔  
دوستوں کے اس گروپ نے ایک دہائی میں سیاست کے کئی روپ دیکھے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو ان میں سے کوئی بھی الیکشن جیت کر 2013 کی اسمبلی کا حصہ نہیں بن سکا۔ یوں یہ دوستی ایوان سے نکل کر ایک دوسرے کے ڈرائنگ رومز اور سیاسی ڈیروں تک پہنچ گئی۔ 
فیصل کریم کنڈی اور ندیم افضل چن پیپلز پارٹی کے تنظیمی عہدیدار کے طور پر میڈیا میں موجود رہے۔ نور عالم خان بھی کسی نہ کسی سطح پر متحرک ضرور تھے لیکن سیاسی اعتبار سے وہ منظر سے غائب ہوگئے۔  
2018 کے انتخابات سے قبل نور عالم خان اور ندیم افضل چن تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ لیکن فیصل کریم کنڈی اپنی جماعت سے جڑے رہے۔ اب دوستوں کے اس ٹولے کے سیاسی نظریات مختلف ہو چکے تھے۔ اس کے باوجود نہ صرف یہ دوستی قائم رہی بلکہ محفلیں اور باہمی گپ شپ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بس اب ایک دوسرے پر کسے جانے والے فقروں کا انداز بدل چکا تھا۔ 

فیصل کریم کنڈی اور ندیم افضل چن پیپلز پارٹی کے تنظیمی عہدیدار کے طور پر میڈیا میں موجود رہے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

یہ ایک دوسرے کے خلاف ایک ساتھ ٹی وی ٹاک شوز میں جانے سے انکار کرتے تاہم باہم گپ شپ میں ایک دوسرے کے سیاسی قائدین اور فیصلوں کی بنیاد پر تنقید کے نشتر خوب برساتے۔   
ندیم افضل چن کو وزیراعظم عمران خان ذاتی طور پر پسند کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ وہ ان کی ’کچن کابینہ‘ کا حصہ رہیں۔ اسی وجہ سے وزیراعظم نے انھیں اپنا معاون خصوصی برائے سیاسی امور اور ترجمان مقرر کیا۔ 
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ ندیم افضل چن کو کسی بڑے عہدے کے لیے چنا گیا بلکہ 2008 سے 2013 کی اسمبلی کے دوران قومی اسمبلی اجلاسوں میں ندیم افضل چن حکومتی رکن ہونے کے باوجود جب عوامی مسائل پر کھل کر بات کرتے تو اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن سے داد وصول کرتے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں وہ اپوزیشن لیڈر اور چیئرمین پی اے سی چوہدری نثار کے پسندیدہ ترین رکن بن گئے۔  
چوہدری نثار نے پی اے سی کی سربراہی چھوڑی تو پیپلز پارٹی نے ندیم افضل چن کو چیئرمین بنا دیا۔ ندیم افضل چن بارہا چوہدری نثار کی بحیثیت چیئرمین پی اے سی کارکردگی کی تعریف کرتے نظر آئے اور انہی کے طریقہ کار کے مطابق پی اے سی کو چلایا۔
دبنگ انداز اور لگی لپٹی کے بغیر بات کرنے والے پاکستانی سیاست دان ندیم افضل چن ایک بار پھر خبروں میں ہیں۔ اس کی وجہ ان کی اپنی پرانی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی میں واپسی ہے۔ وہی پیپلز پارٹی جسے وہ اس بنیاد پر چھوڑ کر گئے تھے کہ ’پی پی اب بھٹو کے منشور سے ہٹ چکی ہے۔‘  
ندیم افضل چن پاکستان کے ان چند سیاست دانوں میں سے ہیں جو پارٹی تبدیل کرنے باوجود نہ صرف مقبول رہے بلکہ الیکشن ہارنے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں بھی ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تو یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ شاید وہ مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لیں لیکن یہ محض افواہیں ہی ثابت ہوئیں۔  
ندیم افضل چن کے وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے مستعفی ہونے کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔
ندیم افضل چن نے وزیراعظم کی جانب سے دہشت گردی کا شکار ہونے والے ہزارہ کمیونٹی کے مزدوروں کے لواحقین کے دھرنے میں جانے سے انکار کیا تھا تو ندیم افضل چن نے ایک ٹویٹ میں دبے لفظوں میں تنقید کی تھی۔  
جس کے بعد حکومتی جماعت کے ترجمانوں کے اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ ’جس کو حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں سے اختلاف ہے وہ مستعفی ہوجائے۔‘ 

کچھ عرصہ قبل نور عالم خان نے پوری کابینہ کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا (فائل فوٹو: سکرین گریب)

باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ ندیم افضل چن نے وزیراعظم کے الفاظ سنے، مسکرائے، لب ہلائے اور اجلاس ختم ہونے کے بعد رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد ایک دن ندیم افضل چن خاموش رہے اور شام کو چُپکے سے وزیراعظم کے ملٹری سیکریٹری سے ملے اور ایک ٹائپ شدہ استعفیٰ انہیں تھما دیا۔‘ 
یہ بھی اتفاق ہے کہ ندیم افضل چن استعفیٰ دینے کے بعد چپکے سے اپنے انہی دوستوں کے گروپ میں آ کر بیٹھ گئے لیکن انہیں بتایا کچھ نہیں۔ دوست انہیں حکومتی ترجمان سمجھ کر خوب زِچ کرتے رہے۔ ان سب کو اگلی صبح ٹی وی پر چلنے والی خبروں سے ہی ندیم افضل چن کے استعفے کے بارے میں معلوم ہوا۔   
ندیم افضل چن کی جانب سے وزیراعظم کی ٹیم سے علیحدہ ہونے کے کچھ عرصہ بعد ان کے دیرینہ دوست اور رکن قومی اسمبلی نور عالم خان بھی حکومتی پالیسیوں بالخصوص مہنگائی کے خلاف سیخ پا دکھائی دیے۔ انھوں نے نے نہ صرف پارلیمانی پارٹی کے اجلاسوں میں بلکہ قومی اسمبلی کے فلور پر بھی پارٹی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔  
کچھ عرصہ قبل ہی نور عالم خان نے پوری کابینہ کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ کیا تو پارٹی کی جانب سے انہیں شوکاز نوٹس بھی دیا گیا۔  
اب جب سیاسی ماحول گرم ہے۔ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاری کر چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کا عوامی مارچ لاہور پہنچ کر ندیم افضل چن کی وکٹ گرا چکا ہے۔ ایسے میں ہر طرف سے یہی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ندیم افضل چن کے بعد نور عالم خان بھی اپنی جماعت کو پیارے ہوں گے یا نہیں؟؟ اس حوالے سے نورعالم خان تاحال خاموش ہیں۔

شیئر: