Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روس کا یوکرین کے اہم فوجی اڈے پر میزائل حملہ، 35 ہلاکتیں

جنگ میں ایک ہزار سے زائد یوکرینی شہری اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ فوٹو روئٹرز
یوکرینی حکام نے کہا ہے کہ روسی افواج کے پولینڈ کی سرحد کے قریب ایک اہم عسکری تنصیب پر میزائل حملہ سے 35 افراد ہلاک، جبکہ 134 زخمی ہو گئے ہیں۔
 فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یوکرین کے مغربی شہر لوائیو کے گورنر نے کہا ہے کہ ’مجھے یہ اعلان کرنا ہے کہ بدقسمتی سے ہم نے مزید ہیرو کھو دیے ہیں۔ انٹرنیشنل پیس کیپنگ اینڈ سکیورٹی سنٹر پر حملے میں 35 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‘
اس سے قبل یوکرینی حکام کا کہنا تھا کہ روسی افواج نے پولینڈ کی سرحد کے قریب واقع یوکرین کی ایک اہم عسکری تنصیب پر میزائل حملہ کیا ہے جہاں نیٹو ممالک کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کی جاتی تھیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے ملٹری انتظامیہ کے حوالے سے کہا کہ اتوار کو روسی افواج نے بین الاقوامی سنٹر برائے امن اور سکیورٹی پر آٹھ میزال داغے ہیں۔
360 مربع کلو میٹر پر محیط عسکری تنصیب پولینڈ کی سرحد سے 25 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جو مغربی علاقے میں قائم بڑی اور وسیع تنصیبات میں سے ایک ہے۔
یوکرین کے وزیر دفاع اولیکسی ریجنیکوف نے ٹویٹ کیا کہ ’روس نے لوویو (مغربی شہر) کے قریب واقع  انٹرنیشنل سنٹر برائے امن اور سکیورٹی پر حملہ کیا ہے۔ غیر ملکی انسٹرکٹرز بھی یہاں کام کرتے ہیں۔ متاثرین سے متعلق معلومات واضح کی جا رہی ہیں۔ یورپی یونین اور نیٹو سرحد کے قریب امن و سلامتی پر یہ نیا دہشت گردانہ حملہ ہے۔ یہ روکنے کے لیے کارروائی کی جائے۔
برطانوی وزارت دفاع نے بھی اتوار کو ٹویٹ میں کہا کہ خرکیف اور ماریوپل سے روسی افواج مشرق کی جانب پیش قدمی کر رہی ہیں اور یوکرینی فوج کو اپنے حصار میں لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اس سے قبل یوکرین نے جنگ زدہ علاقے سے نقل مکانی کرنے والے شہریوں پر حملے کا الزام روسی افواج پر عائد کیا تھا جس میں خواتین اور بچوں سمیت سات شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
یوکرین کی انٹیلی جنس سروس نے کہا تھا کہ شہریوں پر حملہ اس وقت ہوا جب جمعے کو وہ دارالحکومت کیف کے قریب واقع ایک گاؤں سے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے۔
یوکرینی حکومت کے عہدیداروں نے بعد میں تصدیق کی کہ نقل مکانی کرنے والے شہریوں کا یہ قافلہ روس کے ساتھ طے ہونے والے ’گرین کوریڈور‘ سے نہیں گزر رہا تھا۔
یوکرین کے صدر ولودومیر زیلینسکی نے سنیچر کو ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ’ہمیں لڑائی جاری رکھنی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ یوکرین کی جانب سے روسی فوج کے 31 ٹیکٹیکل گروپس کو شکست دینے کے بعد روس مزید فوجیں بھجوا رہا ہے۔
اس سے قبل یوکرین کے صدر نے کہا تھا کہ تین ہفتوں سے جاری اس جنگ کے دوران تقریباً ایک ہزار 300 یوکرینی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے مغربی ممالک پر زور دیا کہ وہ امن مذاکرات میں شامل ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر روسی فوج نے دارالحکومت کیف میں داخل ہونے کی کوشش کی تو مرتے دم تک ان کا مقابلہ کریں گے۔
جرمن چانسلر اور فرانس کے صدر نے بھی ٹیلی فونک رابطے کے دوران صدر ولادیمیر پوتن سے جنگ بندی کا اعلان کرنے کا کہا تاہم ایک فرانسیسی عہدیدار کا کہنا ہے کہ 75 منٹ طویل گفتگو میں صدر پوتن نے جنگ کے اختتام سے متعلق کوئی عندیہ نہیں دیا۔

یوکرین کے مطابق ان کے ایک ہزار سے زائد فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ فوٹو روئٹرز

دوسری جانب روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوو نے بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی ممالک کی جانب سے یوکرین کو ہتھیاروں کی ترسیل سے بھی صورتحال پیچیدہ ہوئی ہے جن کو نشانہ بنانا روس جائز سمجھتا ہے۔
یوکرین کے صدر ولودومیر زیلینسکی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسرائیل کے وزیراعظم نیفتالی بینٹ سے بھی امن مذاکرات کے امکانات سے متعلق بات چیت کی ہے تاہم اب تک ہونے والی سفارتی کوششوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا۔
برطانوی وزارت دفاع نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ یوکرینی دارالحکومت کے شمال مغرب میں لڑائی جاری ہے جبکہ روسی فوج کیف سے 25 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے جو کچھ ہی دنوں میں کیف پر حملہ کر سکتی ہے۔
برطانوی وزارت دفاع کے مطابق یوکرین کے چار شہروں خارکیف، چیرنیہیف، سومی اور ماریوپل پر روسی فوج کی بھاری شیلنگ جاری ہے۔ تاہم یوکرینی فوج کے جنرل سٹاف نے سنیچر کو کہا کہ روس کے حملوں میں کمی آئی ہے اور اکثر مقامات پر حملے رک گئے ہیں۔
جنگ زدہ شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں شہری پھنسے ہوئے ہیں جبکہ 25 لاکھ شہری ہمسایہ ممالک کو نقل مکانی کر چکے ہیں۔

شیئر: