Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈی چوک پر پاور شو، ماضی میں لفظی جنگ کیسے تصادم میں تبدیل ہوئی؟

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 28 یا 29 مارچ کو ہوگی (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر 10 لاکھ افراد کا جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے جواب میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی لانگ مارچ کرتے ہوئے تین روز قبل یعنی 24 مارچ کو ڈی چوک پہنچنے کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہاں پہنچ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ کب تک قیام کرنا ہے۔
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب اپوزیشن کی جماعتیں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا چکی ہیں جس پر ووٹنگ 28 یا 29 مارچ کو ہونی ہے۔
اس تناظر میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ ’جو ارکان اسمبلی تحریک عدم اعتماد میں ووٹ ڈالنے جائیں گے انھیں تحریک انصاف کے جلسے کے اندر سے گزر کر جانا ہوگا۔‘
اپوزیشن جماعتوں نے اسے ’کھلی دھمکی‘ قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف سے پہلے ڈی چوک پہنچنے کا اعلان کر دیا ہے۔  
اپوزیشن کے اعلان کے بعد حکومتی رہنماؤں کی جانب سے جو بیانات سامنے آ رہے ہیں اس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی جماعتوں کے درمیان لفظی جنگ کہیں سیاسی تصادم میں تبدیل نہ ہو جائے۔
کیونکہ سیاسی کشیدگی عروج پر ہے لیکن یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ان سیاسی سرگرمیوں سے قبل اسلام آباد دو انتہائی اہم سرگرمیوں کا میزبان ہے جس کے لیے سکیورٹی کے سخت ترین اقدامات کیے جا رہے ہیں۔  
22 اور 23 مارچ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس ہو رہا ہے۔ یہ او آئی سی وزرائے خارجہ کا 48 واں اجلاس ہے اور پاکستان میں 2007 کے بعد اب 2022 میں منعقد ہو رہا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں نے بھی لانگ مارچ کرتے ہوئے تین روز قبل یعنی 24 مارچ کو ڈی چوک پہنچنے کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اس سے قبل دسمبر 2021 پاکستان نے وزرائے خارجہ اجلاس کے ہنگامی اجلاس کی بھی میزبانی کی ہے تو دوسری جانب 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر مسلح افواج کی سالانہ پریڈ بھی ہو رہی ہے جو ایک قومی ایونٹ ہونے کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کا مظہر بھی ہے۔  
24 مارچ کو تحریک انصاف بھی جلسے کی تیاریاں کرنے ڈی چوک پہنچ رہی ہے تو اپوزیشن کا لانگ مارچ بھی اسی دن ڈی چوک پہنچے گا جبکہ او آئی سی کانفرنس میں شرکت کے یے آنے والے وفود کی اکثریت اس وقت اسلام آباد میں ہی موجود ہوں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سیاسی کشیدگی کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟  
اس حوالے سے تجزیہ کار افتخار احمد نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ’اس وقت اتنی کنفیوژن ہے کہ اچھائی کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ ایک ہی صورت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے ارادوں سے باز آ جائیں اور اپنے پروگرامات ملتوی کر دیں۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’جب ریکوزیشن جمع ہو چکی ہے اور سپیکر کو اجلاس بلانا ہے لیکن وہ ابھی تک فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ ووٹنگ ہونی ہے اور حکومت لوگوں کو دھمکا رہی ہے کہ اس جلسے سے گزر کر ہی ووٹ ڈالنے جانا ہوگا تو ان دھمکیوں کے جواب میں اپوزیشن بھی خاموش نہیں بیٹھے گی۔ سب اس وقت ایسی پوزیشن لے چکے ہیں کہ ان کے لیے پیچھے ہٹنا مشکل ہو رہا ہے۔‘  
افتخار احمد نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اگر یہی صورت حال رہی تو ٹرمپ کے حامیوں کی طرح یہاں بھی پارلیمان پر حملہ نہ ہو جائے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے پاس اب 172 ارکان موجود نہیں ہیں، اگر ہیں تو اعلان کریں اور سب کے نام سامنے لائیں تو بھی یہ صورت حال ڈی فیوز کی جا سکتی ہے ورنہ اسمبلیاں توٹیں گی اور ملک مسائل سے دوچار ہوگا۔‘  

اپوزیشن کی جماعتیں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا چکی ہیں جس پر ووٹنگ 28 یا 29 مارچ کو ہونی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ شاہراہ دستور سیاسی جماعتوں کی ممکنہ باہمی چپقلش کی چشم دید گواہ بنے گی بلکہ اس سے قبل 2007 میں کئی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ جب حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کے سامنے آئی تھیں۔  
تین نومبر 2007 کو جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کرتے ہوئے ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا تھا۔ وکلا اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان سپریم جوڈیشل کونسل کی ہر سماعت پر شاہراہ دستور پر جمع ہو کر احتجاج کرتے تھے۔
24 اپریل 2007 کو اس وقت کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) بھی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے موقع پر میدان میں آ گئی۔ حکمران جماعت نے ایک ڈنڈا بردار ریلی کا اہتمام کیا جو مارگلہ روڈ مسلم لیگ ہاؤس سے شروع ہو کر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک تک پہنچی۔
یہ لوگ سپریم کورٹ کی طرف جانا چاہتے تھے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے دونوں جلوسوں کے درمیان باڑ کھڑی کر دی جس کے باعث یہ جلوس گتھم گتھا ہونے میں کامیاب نہ ہو سکے۔  
موجودہ صورت حال میں جس طرح یہ خدشہ پیدا ہو رہا ہے کہ سیاسی کارکنان کے درمیان تصادم ہو سکتا ہے اس وقت بھی صورت حال یہی تھی تاہم اس وقت انتظامیہ نے ق لیگ کی ریلی کا روٹ اس طرح سے ترتیب دیا ہے کہ تمام کارکنان پریڈ ایونیو پر پہنچے تو انھیں معلوم ہوا کہ ان کے چاروں اطراف قد آدم سے بھی بلند خاردار تاریں بجھی ہوئی ہیں۔  
اسی طرح 29 ستمبر 2008 کو جب پرویز مشرف کے بطور صدارتی امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے ق لیگ کی قیادت نے الیکشن کمیشن جانے کا اعلان کیا تو پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں اور وکلا نے الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کا فیصلہ کیا۔

تین نومبر 2007 کو جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کرتے ہوئے ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا تھا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اس روز جب وکلا اور سیاسی قائدین سڑکوں پر آئے تو ق لیگ کی قیادت تو سامنے نہ آئی لیکن پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سیاسی قائدین جن میں اعتزاز احسن، قمر زمان کائرہ اور علی احمد کرد اور دیگر شامل تھے کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اعتزاز احسن کو پولیس اہلکاروں نے پتھروں اور ڈنڈوں سے مارا تو قمر زمان کائرہ ان کی ڈھال بن گئے۔
پولیس اہلکار علی احمد کرد کو اٹھا کر تھانے لے گئے۔  اس دن وہاں کوریج پر مامور صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی دوران اس وقت کے وزیر مملکت برائے اطلاعات طارق عظیم کیمرہ مینوں کے ہاتھ لگ گئے اور انھوں نے اپنا غصہ ان پر نکال دیا۔ 
اسی شام ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر فاروق ستار پولی کلینک میں طارق عظیم کی عیادت کرنے پہنچے تو دن بھر پولیس تشدد کا نشانہ بننے والے وکلا اور سیاسی کارکنان نے انھیں بھی تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔  
اس کے علاوہ اس وقت کے وفاقی وزراء داکٹر شیر افگن، وصی ظفر، شیخ رشید اور دیگر کو اس سیاسی کشیدگی کے باعث کئی مقامات پر عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

شیئر: