Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلورکراسنگ، آج تک کسی منحرف رکن کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہو سکی؟

جاوید ہاشمی واحد سیاست دان ہیں جنھوں نے آرٹیکل 63 اے لاگو ہونے کے بعد دو مرتبہ پارٹی چھوڑی اور اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوئے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
 وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں حکمران جماعت کو خدشہ ہے کہ ان کے ارکان اپنے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دیں گے جس کے باعث ان ارکان کے خلاف آرٹیکل 63 اے تحت کارروائی کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ 
اردو نیوز کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ 2010 سے فلور کراسنگ کے خلاف شق کو آئین میں شامل کیے جانے کے باوجود آج تک کسی بھی رکن کو اس کے تحت الیکشن کمیشن کے ذریعے ڈی سیٹ نہیں کرایا جا سکا۔ تاہم پارٹی چھوڑنے والے ارکان اس آئینی خلاف ورزی کے تحت ڈی سیٹ کیے جانے سے پہلے ہی مستعفی ہو کر ایوان چھوڑ جانا مناسب سمجھتے ہیں۔ 
پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع  کے مطابق پارٹی کے ممکنہ منحرف ارکان نے بھی اپنی جماعت کو آگاہ کر دیا ہے کہ اگر انھوں نے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا تو وہ فوراً بعد اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہو جائیں گے۔ جس سے نہ صرف پاکستان تحریک انصاف اپنے منحرف ارکان کے خلاف کلارروائی نہیں کر سکے گی بلکہ ایوان میں تحریک انصاف کے نشان پر منتخب ہونے والے ارکان کی تعداد بھی کم ہو سکتی ہے۔ 
2002  میں ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں جب قومی اسمبلی کے حلقوں کے نتائج سامنے آئے تو اس وقت کی کنگز پارٹی یعنی مسلم لیگ ق اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ حکومت بنا سکے۔ ایسے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کے ایک دھڑے کو اپنے ساتھ ملایا جس کا نام پیپلزپارٹی پیٹریاٹ رکھا گیا۔ 
اس گروپ میں 20 کے قریب ارکان اسمبلی تھے جو جیتے تو پیپلز پاررٹی کے ٹکٹ اور انتخابی نشان پر تھے لیکن انھوں نے اپنی پارٹی کا ساتھ دینے کے بجائے پرویز مشرف کی حمایت کا اعلان کیا۔ 
پاکستان کی حالیہ پارلیمانی تاریخ میں فلور کراسنگ کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا لیکن اس وقت جنرل مشرف کی حکومت نے فلور کراسنگ کا قانون معطل رکھا ہوا تھا اس لیے پیپلز پارٹی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر سکی۔ 

جنرل مشرف کی حکومت نے فلور کراسنگ کا قانون معطل رکھا۔ (فوٹو: اے پی پی)

 2008  پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور آئینی اصلاحات کا فیصلہ ہوا تو 2010 میں آئین میں آرٹیکل 63 اے کا اضافہ کیا گیا۔ اس آرٹیکل کے تحت اگر کوئی رکن قومی اسمبلی اپنی پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفٰی دے یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہو جائے یا پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹنگ کے دوران غیر جانبدار رہے یا مخالفت میں ووٹ دے تو اس کے خلاف نا اہلی کی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔  
جن معاملات میں پارٹی سربراہ متعلقہ رکن کی رکنیت ختم کرنے کی کارروائی عمل میں لا سکتے ہیں ان میں وزیراعظم یا وزرائے اعلیٰ کا انتخاب، اعتماد کا ووٹ دینے یا عدم اعتماد کے خلاف ووٹ کرنے اور منی بل یا آئینی ترمیم کے بل پر ووٹنگ شامل ہیں۔  
ان معاملات میں اگر کوئی پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو پارٹی سربراہ اپنے رکن سے وضاحت طلب کرے گا اور اس کی وضاحت سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں اسے منحرف قرار دے کر تحریری طور پر سپیکر اور الیکشن کمیشن کو آگاہ کر سکتے ہیں اور یہی تحریری نوٹس متعلقہ رکن کو بھی بھیجا جائے گا۔  
سپیکر دو دن میں معاملہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجیں گے اور اگر وہ دو دن میں معاملہ ریفر نہیں کرتے تو وہ ریفر شدہ ہی سمجھا جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر اسے الیکشن کمیشن کے سامنے رکھیں گے جو 30 دن میں اس پر فیصلہ کرے گا۔ 
انحراف ثابت ہو جانے کی صورت میں متعلقہ رکن کی اسمبلی رکنیت ختم کر دی جائے گی اور اس کی سیٹ خالی قرار دے دی جائے گی۔  الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف 30 روز میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔

جاوید ہاشمی واحد سیاست دان ہیں جنھوں نے آرٹیکل 63 اے لاگو ہونے کے بعد دو مرتبہ پارٹی چھوڑی۔ (فوٹو: قومی اسمبلی)

2010  سے اب تک درجنوں ارکان قومی اسمبلی نے پارٹیاں بدلیں اور وفاداریاں تبدیل کیں لیکن اس قانون کے تحت آج تک کسی ایک بھی رکن کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی۔ 
اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں آج تک جتنے بھی ارکان نے آئین کے اس آرٹیکل کی خلاف ورزی کی، وہ پارٹی کی جانب سے ان کے خلاف قانونی کارروائی سے پہلے ایوان سے مستعفی ہو جاتے تھے۔ 
ماروی میمن آئین کے آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کرنے والی پاکستان کی پہلی رکن اسمبلی تھیں جنھوں نے 2011 میں پاکستان مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کے درمیان اتحاد قائم ہونے کے بعد مسلم لیگ ق کی رکن ہونے کے باوجود بجٹ کے خلاف ووٹ دیا۔ 
اس سے پہلے کہ مسلم لیگ ق کی جانب سے ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی جاتی انھوں نے 22 جون 2011 کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ 
2013  اور 2018 کے انتخابات سے قبل درجنوں افراد نے پہلے مسلم لیگ ن اور بعد ازاں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی لیکن ان میں اکثریت ایسے افراد کی تھی جنھوں نے یہ فیصلہ اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد کیا۔ تاہم کچھ افراد ایسے بھی تھے جنھوں نے بحیثیت رکن اسمبلی پارٹی چھوڑی۔ اگر وہ پارٹی تبدیل کرنے کے باوجود ایوان میں رہتے تو ان کے خلاف آرٹیکل 63 اے کے ذریعے کارروائی کرتے ہوئے انھیں ڈی سیٹ کیا جا سکتا تھا لیکن کم و بیش ان سب نے دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہی اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

تحریک انصاف اپنے منحرف اراکین اسمبلی کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

جاوید ہاشمی واحد سیاست دان ہیں جنھوں نے آرٹیکل 63 اے لاگو ہونے کے بعد دو مرتبہ پارٹی چھوڑی اور اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوئے۔ 2011 میں وہ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو انھوں نے 24 ستمبر 2011 کو اسمبلی میں ایک دھواں دھار خطاب کیا اور استعفیٰ دے کر ایوان سے باہر چلے گئے۔ ان کے ساتھ ہی ان کی صاحبزادی میمونہ ہاشمی بھی ایوان سے مستعفی ہو گئیں۔ 
جاوید ہاشمی دوسری مرتبہ 2014 کے دھرنے میں تحریک انصاف سے اختلافات کے باعث ستمبر 2014 میں اسمبلی سے مستعفی ہو گئے۔ 
موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 2011 جب وزارت خارجہ سے ہٹا کر نیا قلمدان دینے کی پیش کش کی گئی تو انھوں نے کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کے ساتھ ہی انھوں نے 16 نومبر 2011 کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ بھی دے دیا۔ بعد ازاں انھوں نے 27 نومبر 2011 کو تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ 
پاکستان پیپلز پارٹی کے سردار آصف احمد علی اور عوامی نیشنل پارٹی کے خواجہ محمد خان ہوتی نے اپنی اپنی جماعت چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو دونوں نے دسمبر 2011 میں قومی اسمبلی سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ 
 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی چھوڑ کر ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے سردار نبیل گبول نے جب 2015 میں ایم کیو ایم کو خیرباد کہہ دیا تو انھوں نے بھی 24 فروری 2015 کو اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دے دیا۔ 
 2018 میں جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی شیر اکبر خان نے قومی اسمبلی کے رکن ہوتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن انھوں نے اپنی جماعت سے غلط بیانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کسی پارٹی میں شامل نہیں ہوئے اس لیے ان کے خلاف بھی آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی نہ ہو سکی۔ 

سپریم کورٹ نے عائشہ گلالئی کو ڈی سیٹ کرنے کی درخوست خارج کر دی تھی۔ (فوٹو: فیس بک)

پاکستان تحریک انصاف کی رکن عائشہ گلالئی نے وزیر اعظم عمران خان پر الزامات لگائے اور پارٹی پالیسی پر کھل کر تنقید کی تو تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن میں ان کے خلاف درخواست دی۔ الیکشن کمیشن نے عمران خان کی درخواست خارج کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ عائشہ گلالئی نے پارٹی رکنیت سے استعفیٰ نہیں دیا اور نہ ہی قومی اسمبلی میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا ہے، اس لیے انھیں ڈی سیٹ نہیں کیا جا سکتا۔ 
سپریم کورٹ نے بھی عائشہ گلالئی کو ڈی سیٹ کرنے کی درخوست اسی بنیاد پر خارج کر دی تھی۔ 
2014 میں جب پاکستان تحریک انصاف نے اجتماعی طور پر استعفے دیے تھے اس وقت بھی پاکستان تحریک انصاف کے ارکان مسرت احمد زیب، گلزار خان اور ناصر خٹک نے مستعفی ہونے سے انکار کیا تھا۔ تحریک انصاف کی جانب سے ان ارکان کو مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالا گیا لیکن انھوں نے انکار کر دیا تھا۔ 

شیئر: