او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کا دوسرا روز، اختتامی سیشن آج
دوسرے دن کی کارروائی یوم پاکستان کی پریڈ کے بعد دن ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوئی (فوٹو: اے ایف پی)
او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے دوسرے دن کی کارروائی یوم پاکستان کی پریڈ کے بعد دن ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوئی اور اس کا اختتامی سیشن ساڑھے پانچ بجے سینٹ ہال میں ہوگا۔
قبل ازیں رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے یوم پاکستان کی تقریب میں شرکت بھی کی۔
دوسرے دن کا پہلا سیشن ’امن، انصاف اور اتحاد کے لیے امت مسلمہ کے کردار‘ پر تبادلہ خیال پر مشتمل تھا۔ جس میں او آئی سی ممالک کے وزرائے خارجہ نے خیالات کا اظہار کیا اور تجاویز دیں۔
دوسرا سیشن او آئی سی کا مرکزی اجلاس تھا جس میں ایجنڈے پر رکن ممالک کی قراردادوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔
دن ڈیڑھ بجے سے ساڑھے تین بجے تک نماز اور ظہرانے کا وقفہ ہوا جس کے بعد ان کیمرا اجلاس جاری رہا۔
ساڑھے پانچ بجے او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کا اختتامی سیشن شروع ہوگا جسے میڈیا کے لیے اوپن کر دیا جائے گا۔
ساڑھے چھ بجے کے بعد اجلاس میں ہونے والے فیصلوں، منظور کی گئی قراردادوں اور مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا اور او آئی سی کے سکریٹری جنرل حسین ابراہم طحٰہ اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پریس کانفرنس کریں گے۔
اس سے قبل منگل کو افتتاحی سیشن کے بعد ورکنگ گروپ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تھا۔ افتتاحی اجلاس سے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان، سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور مہمان خصوصی چینی وزیرخارجہ وانگ ژی، او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ کےعلاوہ متعدد ممالک کے وزرائے خارجہ نے خطاب کیا۔
اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان اور دیگر مقررین نے مسلم دنیا کو درپیش متعدد مسائل پر بات کی، جن میں اسلاموفوبیا، کورونا وبا کی صورتحال، ماحولیاتی تبدیلی کے علاوہ فلسطین، کشمیراور افغانستان کی صورتحال شامل تھی۔
او آئی سی کے اجلاس میں تجارتی اور اقتصادی روابط ایجنڈے کا اہم نکتہ ہیں۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اپنے خطاب میں افغانستان میں امن اور سلامتی کے لیے مسلمان ممالک کی کوششوں کی ثوثیق کی۔
انہوں نے کہا کہ ’افغان عوام کو ایک المناک صورتِ حال درپیش ہے جس سے نکلنے کے لیے ان کی مدد کی جانی چاہیے۔‘
انہوں نے 48 ویں اجلاس کے انعقاد پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور اسلامو فوبیا کے خلاف قرارد پر مبارکباد بھی دی۔ انھوں نے اس سلسلے میں مزید کوششوں کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
سعودی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ حوثیوں کی طرف سے جارحیت میں اضافے کی مسلسل کوششوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسئلے کے سیاسی حل کو مسترد کر رہے ہیں۔
’سعودی عرب مطالبہ کرتا ہے کہ حوثیوں کے منفی اثر کے خاتمے کے لیے قراردادوں پر عمل درآمد کیا جائے۔ یمن میں اسلحے کی برآمد کا خاتمہ ہونا چاہیے کیونکہ اس سے خطے کے امن کو خطرہ ہے۔‘
انھوں نے اسلامی ممالک سے کہا کہ ’وہ حوثیوں پر دباؤ بڑھائیں تاکہ میری ٹائم سکیورٹی کو بہتر کیا جا سکے۔ سعودی عرب یمن میں انسانی امداد جاری رکھے گا۔‘
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے پر مغرب میں رہنے والے مسلمان زیادہ متاثر ہوئے۔‘