او آئی سی: اتحاد، انصاف اور ترقی، وزیراعظم کی خصوصی تحریر
او آئی سی: اتحاد، انصاف اور ترقی، وزیراعظم کی خصوصی تحریر
اتوار 20 مارچ 2022 21:37
(او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے 48 ویں اجلاس کے موقع پر عرب نیوز کے لیے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی خصوصی تحریر)
اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کا پاکستان کی آزادی کے 75 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہونا مسلمانوں کا پاکستان کے ساتھ غیر معمولی یکجہتی کا اظہار ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) دنیا کی دوسری بڑی بین الحکومتی تنظیم ہے جو عالم اسلام کی مشترکہ آواز کی نمائندگی کرتی ہے۔
اس تنظیم نے عالم اسلام کے مشترکہ مفادات اور مقاصد کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھایا۔ او آئی سی عالمی امن و سلامتی کے علاوہ مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اور مذاہب کے درمیان افہام و تفہیم اور مکالمے کے فروغ کے لیے کوشاں رہی جبکہ امن، انصاف اور باہمی احترام کے اسلامی اقدار کو تقویت دی۔
اسلام آباد میں ہونے والی یہ کانفرنس دنیا کی تاریخ میں آنے والے ایک اہم موڑ پر منعقد ہو رہی ہے۔ سال 1945 میں قائم ہونے والا عالمی سلامتی اور اور معاشی آرڈر کا ڈھانچہ یکطرفہ اور بارہا طاقت کے استعمال کی وجہ سے تباہ ہو رہا ہے۔ ایک نئی ’سرد جنگ‘ شروع ہے اور ممالک کے درمیان اور اندر عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہے جو کورونا کی عالمی وبا کے باعث مزید بڑھا ہے، جبکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور ٹیکنالوجی میں آنے والا انقلاب کا بھی سامنا ہے۔
اسلامی ممالک کو بہت احتیاط کے ساتھ ان ’ئنے حقائق‘ سے نمٹنا ہوگا اور اپنے انفرادی اور مشترکہ مفادات کی تعمیل کے لیے ابھرتے ہوئے ورلڈ آرڈر کو ترتیب دینے میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔
اس مقصد کے لیے انہیں سب سے پہلے اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ اور فروغ کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہ ممکن بنانے کے لیے اصولوں کی پابندی کرنا ہوگی، بڑی طاقتوں کی مخاصمت میں شمولیت سے بچنا ہوگا، بین الاسلامی تنازعات کو حل کرنا ہوگا اور غیر ملکی مداخلت کو روکنا ہوگا۔
او آئی سی کو فلسطین اور کشمیر میں حق خود ارادیت اور غیر ملکی قبضے سے نجات کے لیے جاری تحریکوں کی حمایت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ اگرچہ یہ اہداف دشوار ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ تاریخ کا جھکاؤ انصاف کی طرف ہی ہوتا ہے۔
جموں و کشمیر کو اپنی شناخت سے محروم کر کے، آبادی کو تبدیل کرکے اور لوگوں کو بے دردی سے دبا کر اس تنازع سے متعلق انڈیا کی حتمی حل مسلط کرنے کی کوشش ناکام ہوگی۔
جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اور استحکام جموں و کشمیر تنازع کے حل پر منحصر ہے جو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے۔
ہم انڈیا سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں۔ دہلی کو چاہیے کہ وہ پاکستان اور کشمیر کے ساتھ مخلصانہ اور نتائج پر مبنی مذاکرات کے آغاز کے لیے سازگار ماحول پیداکرے، آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے سمیت مقبوضہ کشمیر میں یکطرفہ اقدامات کو واپس لے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے۔
افغانستان اور خطے میں امن و سلامتی کی بحالی کے لیے چالیس سال بعد حقیقی موقع آیا ہے۔ افغانستان کو انسانی بحران اور معاشی تباہی سے بچانے کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے۔افغان حکام کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھیں تاکہ انسانی حقوق بالخصوص خواتین کو حقوق کو فروغ دیا جائے اور ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مؤثر حکمت عملی بنائی جائے۔
عالم اسلام کو درپیش مسائل کا حل ہمیں خود تلاش کرنے چاہیے اور انہیں فروغ دینا چاہیے۔ شام، لیبیا اور یمن میں تنازعات کو متعلقہ مسلمان ممالک کے درمیان موافقت اور تعاون کے ذریعے حل کیا جائے اور ان تنازعات میں غیر مسلمان ممالک کو مداخلت نہ کرنے دی جائے۔
او آئی سی کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے کہ وہ امن اور سلامتی کے لیے ایک ایسا ڈھانچہ قائم کرے جو مسلمان ممالک کے درمیان یا غیر مسلم ممالک اور اداروں کے ساتھ تنازع پیدا ہونے کی صورت میں اسے مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دے۔
مسلمان ممالک مجموعی طور پر انسانی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ باہمی مفادات اور کپیسٹی بلڈنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کرنا چاہیے۔ معاشی اور تجارتی شعبوں میں مشترکہ اسلامی اقدامات سیاسی افہام و تفہیم اور یکجہتی کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔
کورونا کی عالمی وبا اور موسمیاتی تبدیلیوں نے ہمارے سماجی اور معاشی چیلنجز کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ تاہم ان چیلینجز نے او آئی سی ممالک کے درمیان اتحاد کے لیے ترجیحات کو دوبارہ سے طے کرنے کے مواقع بھی پیدا کیے ہیں۔
مسلم ممالک کو وبا سے بحالی اور دیرپا ترقی کے مقاصد کی تکمیل اور وسائل کی فراہمی کے لیے دیگر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔
ان کوششوں میں قرضوں کے حوالے سے ریلیف کی فراہمی، 0.7 فیصد آفیشل ڈیویلپمنٹ ٹارگٹ کو پورا کرنے، آئی ایم ایف کے 400 بلین ڈالر ’سپییشل ڈرائنگ رائٹس‘ کی نئے سرے سے تقسیم، ملٹی لیٹرل ڈیویلپمنٹ بینکوں کی جانب سے زیادہ قرضوں کی فراہمی، بڑے پیمانے پر سرکاری اور نجی شعبے کی جانب سے دیرپا انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری، اور 100 بلین ڈالرز سے زائد موسمیاتی تبدیلی پر خرچ کرنے کے وعدوں کی تکمیل شامل ہے۔
ہمیں عالمی خزانہ، تجارت اور ٹیکسیشن کے شعبے میں شفاف اور مساوی سلوک کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ ہر سال کرپشن، فراڈ، ٹیکس چوری اور ٹیکس بچانے کی مد میں ہمارے ممالک سے ’سیف ہیونز‘ کو ہونے والی اربوں ڈالرز کی منتقلی کو نہ صرف روکنا چاہیے بلکہ یہ پیسہ واپس کرنے کے لیے اقدامات بھی کرنے چاہیے۔
او آئی سی ممالک کو معلومات پر مبنی، مربوط اور مستقبل کی ڈیجیٹل عالمی معیشت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ او آئی سی ’کمیشن فار دی فیوچر‘ قائم کرنا چاہیے جو سائنس، ٹیکنالوجی، تجارت اور معیشت کے ٹرینڈز کا مطالعہ کرتے ہوئے طویل مدتی لائحہ عمل تجویز کرے۔
ہمیں مشرق اور مغرب کے تمام ممالک اور گروپس کے ساتھ اقتصادی تعاون کو فروع دینا چاہیے۔ اور ساتھ ہی مسلم ممالک میں موجود معاشی مواقعوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی ترقیاتی بینک اور او آئی سی کے دیگر اداروں کو استمال کرنا چاہیے۔ ماہرین پر مشتمل ایک خصوصی ٹاسک فورس او آئی سی کے رکن ممالک کے درمیان معاشی، اقتصادی، تجارتی اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون کے لیے ایک منصوبہ تیار کر سکتی ہے۔
آخر میں کہنا چاہوں گا کہ ہمیں اپنے عقیدے، اسلام کو عالمی سطح پر فروغ دینا چاہیے اور ہر جگہ پر ہر مسلمان کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن کی بے حرمتی کے خلاف بھرپور طریقے سے آواز اٹھانی چاہیے۔
اسلاموفوبیا کی سب سے بدترین شکل ریاستی سرپرستی میں انڈیا کو صرف ہندوؤں کا ملک بنانے کی مہم ہے۔ انڈیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کا خطرہ موجود ہے۔
مجھے بڑی خوشی ہے کہ پاکستان کی او آئی سی رکن ممالک کے ساتھ مل کر پیش ہونے والی قراداد کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا ہے جس میں 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن کے طور پر منانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ ہم آپس میں روابط بڑھانے، تمام مذاہب اور عقائد کے احترام اور عالمی سطح پر تہذیبوں کے درمیان مکالمے کے فروع کی کوششیں جاری رکھیں گے تاکہ پر امن بقائے باہمی اور بین المذاہب ہم آہنگی قائم رہے۔
پاکستان ہمیشہ کے لیے اسلام کا قلعہ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کا نگہبان رہے گا۔ مجھے امید ہے کہ ہم پیغمبر اسلام کے اصولوں جن کو ریاست مدینہ میں اپنایا گیا پر عمل کر کے پاکستان کو قائداعظم کے وژن کے مطابق ایک جدید، جمہوری اور اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں کامیاب ہوں گے۔