محکمہ معدنیات کے حکام کا کہنا ہے کہ متاثرہ کان کو حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے دو برس قبل بند کردیا گیا تھا مگر کان کے مالک ایک بااثر شخصیت ہیں جنہوں نے حفاظتی انتظامات کا بندوبست کیے بغیر خلافِ قانون دوبارہ کوئلہ نکالنا شروع کرا دیا تھا جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔
ڈپٹی کمشنر ہرنائی سردار محمد رفیق ترین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کوئٹہ اور ہرنائی کے درمیانی علاقے زرغون غر میں واقع کوئلے کی کان میں حادثہ منگل کی صبح پیش آیا جہاں گیس بھر جانے سے دھماکہ ہوااور کان کا ایک بڑا حصہ منہدم ہوگیا۔‘
ڈپٹی کمشنر کے مطابق ’حادثے کے وقت کان میں چھ کان کن کام کر رہے تھے جن میں سے تین کو ساتھی کان کنوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زندہ نکال لیا جبکہ تین کان کن 13 سو فٹ گہرائی میں پھنس گئے۔ جنہیں تین دن گزرنے کے باوجود بھی نہیں نکالا جا سکا۔ ان کے زندہ بچ جانے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
’پھنسے ہوئے مزدوروں کے رشتہ دار کان کے باہر ’معجزے کے منتظر‘
انہوں نے بتایا کہ ’کان کنوں کو نکالنے کے لیے کوئٹہ اور ہرنائی سے پی ڈی ایم اے، محکمہ معدنیات، پی پی ایچ آئی اور لیویز فورس کی امدادی ٹیمیں کام کررہی ہیں۔ امید ہے کہ آج یا کل تک ہم کان کنوں کو نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔‘
پھنسے ہوئے کان کنوں میں ایک مقامی جبکہ دو افغان پناہ گزین بتائے جاتے ہیں۔
ہرنائی میں کوئلہ مزدوروں کی تنظیم کے ایک رہنما محمد یونس نے بتایا کہ ’حادثے کی اطلاع ملنے پر متاثرہ کان کنوں کے رشتہ دار بھی موقع پر پہنچے ہوئے ہیں تاہم سینکڑوں فٹ گہری اور تاریک کان میں پھنسے ہوئے اپنے پیاروں سے متعلق انہیں کوئی خبر نہیں۔ وہ کان کے باہر بیٹھ کر دعا کررہے ہیں کہ کوئی معجزہ ہوجائے تو اور ان کے پیارے بچ جائے مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔‘
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے رہنما لالہ سلطان کے مطابق پرونشل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور محکمہ معدنیات کی امدادی ٹیمیں 10 گھنٹے تاخیر سے پہنچیں۔ ریسکیو ٹیموں کے پاس کوئی ضروری آلات بھی نہیں اس لیے ریسکیو کا زیادہ تر خود کان کن کررہے ہیں جو قریب واقع دیگر کانوں سے وہاں پہنچے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ’کوئلہ کان کے مالک ایک سابق رکن قومی اسمبلی کے بھائی ہیں جس نے کان کے اندر حفاظتی انتظامات کا کوئی خیال نہیں رکھا اور کان کنوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگایا۔‘
’کان میں متبادل راستہ موجود ہی نہیں تھا‘
لالہ سلطان کے مطابق ہر کان میں ایک متبادل راستہ دینا ضروری ہوتا ہے تاکہ عام حالت میں آکسیجن کی فراہمی اور گیس کا اخراج ہو سکے اور اگر کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو اس راستے کو استعمال کرکے باہر نکلا جاسکے مگراس کان میں نہ صرف متبادل راستہ موجود نہیں تھا بلکہ 1300 فٹ سے زائد گہرائی سے کوئلہ نکالنے کے لیے راستہ بھی بہت تنگ بنایا گیا تھا جبکہ قانون کے مطابق کان کی چوڑائی چھ فٹ اور اونچائی سات فٹ سے کم نہیں ہونی چاہیے۔
چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان عبدالغنی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ کان میں حفاظتی انتظامات کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا تھا اور اس میں متبادل راستہ موجود ہی نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ متبادل راستہ نہ ہونے کی وجہ سے کان میں گیس کی مقدار بہت زیادہ جمع تھی، اس لیے دھماکے کی شدت زیادہ تھی اور اس کے نتیجے میں کان کا چار سو سے پانچ سو فٹ حصہ بیٹھ گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کان کے اندر مٹی، پتھر اور لکڑی پر مشتمل ملبے کا ایک پہاڑ بن گیا ہے۔ ملبہ ہٹانے کا کام مزدوروں کو کرنا پڑتا ہے مگر ٹھیکیدار کے پاس مزدوروں کی تعداد بھی بہت کم ہیں جس کی وجہ سے ریسکیو آپریشن مکمل کرنے میں تاخیر ہورہی ہے۔ ہماری چار سے پانچ ٹیمیں باہر سے کان میں گیس کو کنٹرول کررہی ہیں تاکہ مزید کوئی نقصان نہ ہو۔‘
ڈپٹی کمشنر ہرنائی سردار محمد رفیق ترین کے مطابق ’مزدور کان کے اندر اتر کر ملبہ ہٹا رہے ہیں اور کچھ متبادل راستہ بنا رہے ہیں ۔ ابھی مزید 70 فٹ سے زائد حصے کی کھدائی کی ضرورت ہے جس کے بعد پھنسے ہوئے کان کنوں تک پہنچا جاسکے گا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ کان کا یہ حصہ کافی کمزور ہے اور جب مزدور کھدائی کرکے آگے بڑھتے ہیں تو پیچھے سے ملبہ گر جاتا ہے۔
چیف انسپکٹر مائنز کے مطابق ’حفاظتی آلات کی فراہمی ٹھیکیدار کی ذمہ داری ہے مگر اس کے پاس کوئی حفاظتی آلات ہیں اور نہ ہی ایمرجنسی کی صورت میں کوئی انتظام موجود تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جس علاقے میں کان قائم ہے وہاں امن وامان کا مسئلہ درپیش ہے ۔ ہماری ٹیم نے دو سال پہلے اس کان کو حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بند کردیا تھا اور اب اطلاع دیے بغیر کان سے کوئلہ نکالنے کا کام دوبارہ شروع کردیا گیا تھا۔‘
چیف انسپکٹر مائنز نے کہا ’کان مالک اور ٹھیکیدار کے خلاف ہم کورٹ آف انکوائری بنائیں گے۔ مجرمانہ غفلت برتنے پر انہیں پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور چھ ماہ کی قید کی سزا ہوسکتی ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ سنہ 1923 کے ایکٹ میں جرمانہ صرف چار ہزار تھا جسے 2011 میں 40 ہزار اور 2020 میں بڑھا کر پانچ لاکھ روپے کردیا گیا تھا۔
’حادثات کی سب سے بڑی وجہ ٹھیکیداری نظام ہے‘
محکمہ معدنیات کے مطابق 2021 میں بلوچستان میں کوئلہ کانوں میں مختلف حادثات میں 86 کان کنوں کی جانیں گئیں۔ زیادہ تر اموات گیس بھر جانے، کان منہدم ہونے اور ٹرالی لگنے کی وجہ سے ہوئیں۔
گزشتہ سال سب سے زیادہ جان لیوا حادثات ہرنائی میں پیش آئے جہاں گزشتہ سال مارچ میں ایک ہی حادثے میں سات کان کنوں کی موت ہوئی۔
تاہم پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مطابق سرکاری اعداد و شمار کے مقابلے میں اصل تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہے۔ صرف2021 میں کم از کم 176 کان کن ہلاک اور 180 زخمی ہوئے۔
تنظیم کے رہنما لالہ سلطان کے مطابق ’حادثات کی سب سے بڑی وجہ ٹھیکیداری نظام ہے۔ مالکان کوئلہ کان ٹھیکے پر دے دیتے ہیں۔ ٹھیکیدار لاگت میں کمی کے اقدامات کا سہارا لیتے ہوئے مزدوروں کی حفاظت پر خرچ ہی نہیں کرنا چاہتا۔‘
’چھ ہزار کوئلہ کانوں کے لیے صرف 27 مائنز انسپکٹر‘
انسانی حقوق کمیشن کی 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سینکڑوں کانیں ایسے لوگ چلا رہے ہیں جن کے پاس کانوں میں حفاظت یا ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے نہ تو مالی وسائل ہیں اور نہ ہی تکنیکی مہارت۔
رپورٹ کے مطابق ’صوبے کی بیشتر دیگر کانوں میں کان کنوں کے حفاظتی اور طبی سہولیات کا انتظام نہیں اور کان کنی کے شعبے سے وابستہ 90 فیصد لوگ غیرہنرمند مزدور ہیں، انہیں مناسب تربیت فراہم نہیں کی جاتی جس سے ان کی حفاظت پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔‘
کمیشن کے مطابق ’کانوں میں حفاظت اور کام کے بہتر حالات کو یقینی بنانے کے ذمہ دار سرکاری حکام باقاعدہ معائنہ نہیں کرتے۔ بلوچستان میں 6 ہزار سے زائد کانوں میں صحت اور حفاظت کی نگرانی کے لیے صرف 27 مائنز انسپکٹرز ہیں جو بہت کم ہیں۔‘
چیف انسپکٹر مائنز کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں 35 سے50 ہزار مزدور کوئلہ کانوں میں کام کرتے ہیں۔ بیشتر کوئلہ کان بیشتر دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں واقع ہیں۔ امن وامان ،وسائل اور عملے کی کمی کی وجہ سے کانوں میں صحت اور حفاظت کی سہولیات کی نگرانی میں مشکلات کا سامنا ہے۔‘