Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک عدم اعتماد پیش، قومی اسمبلی کا اجلاس 31 مارچ تک ملتوی

قومی اسمبلی میں اپوزیشن اتحاد کی جماعتوں کے 162 ارکان ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی
قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پیش کر دی گئی ہے۔
پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری کی زیر صدارت ہوا جہاں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے قرارداد پیش کی۔
تحریک عدم اعتماد آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت پیش کی گئی جس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے اجلاس 31 مارچ کی سہ پہر چار بجے تک ملتوی کر دیا۔
قبل ازیں وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے پارلیمنٹ ہاوس میں اپوزیشن جماعتوں کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔
پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں قومی اسمبلی کے آج ہونے اجلاس کے حوالے سے حکمت عملی مرتب کی گئی۔
پارلیمانی پارٹی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ وقفہ سوالات کے دوران کوئی ضمنی سوال نہیں ہوگا اور کوشش کی جائے گی کہ عدم اعتماد کی تحریک جلد پیش ہو۔
سابق صدر آصف علی زرداری، مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رکن قومی اسمبلی مولانا اسعد محمود بھی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں موجود تھے۔
دریں اثنا اپوزیشن وفد نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے ملاقات کی۔ جس میں سپیکر نے آج عدم اعتماد کی تحریک ایوان میں پیش کرنے کی اجازت دینے کی یقین دہانی کروائی۔ تاہم قومی اسمبلی کا اجلاس ابھی تک مقررہ وقت پر شروع نہیں ہو سکا۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس میں سپیکر اسد قیصر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کو باقاعدہ بحث اور ووٹنگ کے لیے منظور کرنے توقع کی جا رہی ہے جس کے بعد تین سے سات روز پر محیط عدم اعتماد کا آئینی عمل شروع ہو جائے گا۔
اتوار کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری قومی اجلاس کے ایجنڈے میں تحریک عدم اعتماد کو سرفہرست رکھا گیا ہے جبکہ 27 نکاتی ایجنڈے میں حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے حوالے سے 26 ویں آئینی ترمیم کا بل بھی پیش کریں گے۔
اپوزیشن کی جانب سے آٹھ مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی تھی جبکہ سپیکر نے 25 مارچ کو اجلاس طلب کیا تھا تاہم پہلے دن ایک ایم این اے خیال زمان کی وفات پر فاتحہ کے بعد اجلاس کا ایجنڈا معطل کر دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی کارروائی شروع ہونے کے بعد تین سے سات دن کے اندر اس پر ووٹنگ کرانا ضروری ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بتایا کہ اگر سپیکر پیر کو تحریک عدم اعتماد پر کارروائی شروع کرتے ہیں تو پیر سے ہی دنوں کی گنتی شروع ہو جائے گی تاہم ووٹنگ کا عمل تین دن سے قبل نہیں ہو سکتا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے میں عدم اعتماد کی تحریک شامل ہے تاہم یہ بات حتمی نہیں کہ اس تحریک کو آج ہی ایوان میں پیش کر دیا جائے گا اور اس پر بحث شروع کرائی جائے۔
ایجنڈے میں کہا گیا ہے کہ اجازت ملنے پر اپوزیشن وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی جمع کرائی گئی تحریک ایوان میں پیش کرے گی۔
عدم اعتماد کی تحریک پر اپوزیشن کے 152 ارکان کے دستخط ہیں۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن اتحاد کی جماعتوں کے 162 ارکان ہیں تاہم جمعے کو ہونے والے اجلاس میں تین ارکان غیرحاضر تھے۔
ان تین ارکان میں سے ایک آزاد رکن علی وزیر کراچی کی جیل میں ہیں۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم بیرون ملک ہیں۔

اسلام آباد میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی ملاقاتیں جاری ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی

اسی طرح جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے چترال سے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے تاحال عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کا واضح اعلان نہیں کیا اور وہ پارٹی کی ہدایات کے منتظر ہیں۔
دوسری جانب حکمران جماعت تحریک انصاف کے اتحادیوں نے تاحال اپنے کارڈز شو نہیں کیے تاہم ان کی ملاقاتوں میں پیر کو تیزی آ گئی ہے۔ خاص طور پر پنجاب جہاں اتحادی جماعت مسلم لیگ ق اپوزیشن سے وزارت اعلیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے وہاں پیر کو وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد لگتا ہے اتحادی جلد کوئی فیصلہ کرنے والے ہیں۔
پنجاب کی صورتحال سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ق اور اپوزیشن کے معاملات حتمی مراحل میں داخل ہو رہے ہیں اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے ان معاملات کو خراب کرنے کے لیے اسمبلی توڑنے کا سدباب تحریک عدم اعتماد کی شکل میں کیا گیا ہے۔
پیر کو مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کی ملاقات کے علاوہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق کی قیادت کے درمیان بھی اسلام آباد میں ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔
ایم کیو ایم کے اعلامیے کے مطابق مسلم لیگ ق کا وفد چوہدری پرویز الٰہی کی سربراہی میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے ملاقات کرے گا۔
اسلام آباد کے پارلیمنٹ لاجز میں ہونے والی اس ملاقات میں سینیئر ڈپٹی کنوینئر عامر خان، وسیم اختر، امین الحق، کشور زہرہ، خواجہ اظہار الحسن اور جاوید حنیف شریک ہو رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے پنجاب اسمبلی میں بھی وزیراعلیٰ پر عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی ہے۔ فائل فوٹو: مسلم لیگ ن ٹوئٹر

دوسری طرف پی ٹی آئی کے اعلیٰ سطح کا وفد بھی چودھری برادران کی اسلام آباد میں رہائش گاہ پر ان سے ملا ہے۔ 
ملاقات میں تحریک عدم اعتماد، موجودہ ملکی سیاسی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وفاقی وزریر چودھری طارق بشیر چیمہ، مونس الہیٰ، ارکان قومی اسمبلی سالک حسین، حسین الٰہی اور سینیٹر کامل علی آغا نے ق لیگ جبکہ وفاقی وزرا اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک نے پی ٹی آئی کی نمائندگی کی۔

شیئر: