Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ، اسمبلی کا اجلاس شروع

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہو گیا ہے۔
 اگر اپوزیشن ایوان میں 172 یا زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو وزیراعظم عمران خان عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے بصورت دیگر وہ اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے اور اپوزیشن کو شدید دھچکا لگے گا۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے اتوار کے اجلاس کے لیے جاری کیے گئے ایجنڈے میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شامل ہے۔ اجلاس کے لیے صبح 11 بج کر 30 منٹ کا وقت دیا گیا تھا جو 30 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔
اس وقت ایوان میں تحریک انصاف کے 30 کے قریب ارکان موجود ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب نے دعویٰ کیا ہے کہ ایوان میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 176 ہے۔
انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے ممبران کی فہرست شیئر کی ہے۔
مریم اورنگزیب نے لکھا کہ ’اپوزیشن کی حمایت بڑھ رہی ہے الحمدللہ۔‘
مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ اور چوہدری سالک حسین اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھ گئے جس پر ن لیگ نے ان کا تالیوں سے استقبال کیا۔
ایجنڈے کے آئٹم چار کے مطابق اجلاس اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی جانب سے 28 مارچ کو پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ آئین کے آرٹیکل 95 کے مطابق کرائی جائے گی۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان اس ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں۔

ریڈ زون میں داخل ہونے پر پی ٹی آئی کی تین خواتین کارکن گرفتار

اسلام آباد پولیس نے تحریک انصاف کی تین خواتین کارکنوں کو ریڈ زون میں داخل ہونے پر حراست میں لے لیا ہے۔ اسلام آباد کی انتظامیہ نے وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون میں جلسے جلوس اور ریلیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
 سنیچر کو جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق ریڈ زون میں دفعہ 144فوری طور پر نافذ العمل ہو گی اور یہ فیصلہ امن او امان کی صورتحال خراب ہونے کے خدشے کے  پیش نظر کیا گیا ہے۔
پورے علاقے میں کنٹینرز لگا کر عام آمدورفت کو روک دیا گیا ہے۔ اسی طرح  قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ نے اتوار کو ہونے والے اجلاس کے موقع پر خصوصی حفاظتی اقدامات اٹھاتے ہوئے وزرا اور ارکان پارلیمان کے مہمانوں کی پارلیمنٹ میں آمد پر پابندی عائد کردی ہے۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے سنیچر کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سکیورٹی گارڈ کو پارلیمنٹ ہاؤس کی حدود میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی، بہتر یہی ہوگا کہ انہیں پارلیمنٹ لاجز کے سامنے ہی محدود کیا جائے۔
اراکین اسمبلی کو سہولت فراہم کرنے کی غرض سے پارلیمنٹ لاجز اور گورنمنٹ ہاسٹل سے پارلیمنٹ ہاؤس تک شٹل سروس چلائی جائے گی تاکہ گاڑیوں کا رش نہ لگے۔

’آواز بلند کرنی ہے لیکن تصادم نہیں کرنا‘

اتوار کو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن سمجھتی ہے قوم خاموش خاموش رہے گی تو ایسا نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کی خودمختاری کے لیے آواز بلند کرنی ہے لیکن تصادم نہیں کرنا۔‘
وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ ’ہماری پالیسی ہے قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا، کسی کو نقصان نہیں پہنچانا۔‘
انہوں نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ کرسی کے لالچ، نیب کے خوف سے ملک کا مفاد داؤ پر لگا رہے ہیں۔ ’یہ صرف عمران خان، آئین اور جمہوری نظام کے خلاف سازش ہے۔‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کا کوئی نظریہ نہیں، ہم اس سازشی ٹولے کا مقابلہ کریں گے۔‘
 سنیچر ہی کو وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکمران جماعت اور اس کے حامی ارکان بھی اجلاس میں شریک ہوں گے، جبکہ اس سے قبل پارٹی رہنما عمران خان نے اپنی جماعت کے ارکان کو ووٹنگ میں شریک ہونے سے روکنے کے لیے باقاعدہ خط لکھا تھا۔

بظاہر اپوزیشن کے پاس اتحادیوں سمیت 177 ارکان کی حمایت موجود ہے (فوٹو قومی اسمبلی)

اجلاس میں ووٹنگ کیسے ہو گی؟
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 95 کے مطابق تحت کسی بھی وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کےلیے موجودہ اسمبلی کی کُل تعداد کی سادہ اکثریت کی حمایت درکار ہوتی ہے۔
اس وقت موجودہ اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد 342 ہے۔ اس لیے اپوزیشن کو اجلاس میں کامیابی کے لیے کم از کم 172 ارکان کے ووٹ دکھانے ہوں گے۔ ووٹنگ ارکان کو دو اطراف تقسیم کرنے کے ذریعے ہو گی۔ کہا جائے گا کہ جو ارکان عدم اعتماد کی قرارداد کے حق میں ہیں وہ ایک سائیڈ پر ہو جائیں، جبکہ مخالف ارکان دوسری سائیڈ پر ہو جائیں۔ اس کے بعد  پھر ان کی گنتی کی جائے گی۔
بظاہر اپوزیشن کے پاس اتحادیوں سمیت 177 ارکان کی حمایت موجود ہے اور اس کا دعوی ہے کہ اسے درجن بھر پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے، مگر دیکھنا یہ ہو گا کہ ان میں سے کتنے ووٹنگ کے عمل میں شریک ہوتے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وزیراعظم عمران خان اپنے عہدے سے فارغ ہو جائیں گے اور اس کے ساتھ ہی ان کی کابینہ بھی عہدوں سے سبکدوش ہو جائے گی۔
کسی وجہ سے تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جانے کی صورت میں وزیراعظم عمران خان اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے اور قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے معطل ہو جائے گا۔
ویسے تو آئین کے آرٹیکل 94 کے مطابق صدر وزیراعظم کی مدت پوری ہونے کے بعد اس کے جانشین کی نامزدگی تک اسے کام جاری رکھنے کا کہہ سکتا ہے۔
تاہم ماہر قانون و آئین حامد خان کے مطابق چونکہ پاکستان میں آج تک کبھی وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے تحت نہیں ہٹایا جا سکا، اس لیے ابہام موجود ہے کہ کیا اس طرح پارلیمنٹ کی جانب سے ہٹائے جانے کے بعد وزیراعظم نئے چیف ایگزیکٹو کی تعیناتی تک اپنے عہدے پر کام کر سکتے ہیں؟

حامد خان کے مطابق صدرِ مملکت کے لیے لازم ہو گا کہ وہ فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں (فوٹو اے ایف پی)

حامد خان کے مطابق اس صورت میں صدر عارضی انتظام کے طور پر کسی بھی رکن اسمبلی کو بطور وزیراعظم کام کرنے کا کہہ سکتا ہے۔
لیکن ماہر پارلیمانی امور اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمینٹری سروسز کے سابق سربراہ ظفراللہ خان کے مطابق ماضی قریب میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ وزیراعظم کا عہدہ چند دنوں کے لیے خالی رہا ہو۔
انہوں نے مثال دی کہ جب 19 جون 2012 کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیا گیا تو اگلے چند دن تک ملک میں وزیراعظم کا عہدہ خالی رہا تھا اور 22 جون کو وزیراعظم پرویز اشرف کا انتخاب کیا گیا۔
اسی طرح جب 2017 میں وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل کیا تو اس وقت بھی شاہد خاقان عباسی کے انتخاب تک عہدہ خالی رہا تھا۔
نئے وزیراعظم کا انتخاب کتنے دنوں میں ہو گا؟
حامد خان کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے فورا بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہو جائے گا۔ تاہم اس کے بعد صدر کو چاہیے کہ ایک دو دن میں نئے وزیراعظم  کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا سیشن بلائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کے بعد وزیراعظم کے انتخاب کا طریق کار اور مدت تو آئین میں موجود ہے مگر اس طرح کی صورتحال میں مدت مقرر نہیں ہے۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئے وزیراعظم کا انتخاب اوپن بیلٹ سے ہو گا (فوٹو اے ایف پی)

اُن کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں صدرِ مملکت کے لیے لازم ہو گا کہ وہ فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں جس میں نئے قائدِ ایوان کا انتخاب ہو۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرینسی (پلڈاٹ ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کے مطابق قومی اسمبل قواعد کے مطابق کسی بھی وجہ سے اگر وزیراعظم کا عہدہ خالی ہوجائے تو قومی اسمبلی اپنی ہر کارروائی چھوڑ کر وزیراعظم کا انتخاب سب سے پہلے کرے گی۔
 البتہ یہاں بھی نئے وزیراعظم کے انتخاب کےلیے وقت کی قید کا تذکرہ موجود نہیں۔
حامد خان کے مطابق صدر کی جانب سے اجلاس طلب کیے جانے پر وزیراعظم کا انتخاب ایک یا دو دن میں بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیےامیدوار کو رکن اسمبلی نامزد کر سکتا ہے اور ممبر اسمبلی ہی تائید کنندہ بن سکتا ہے۔
امیدواروں کی نامزدگی کے بعد سپیکر ووٹنگ کے وقت کا تعین کرے گا۔ نئے وزیراعظم کا انتخاب اوپن بیلٹ سے ہو گا اور ارکان کو شو آف ہینڈز یا تقسیم ہو کر اپنے ووٹ کا اظہار کرنا ہوگا۔ نئے وزیراعظم کو منتخب ہونے کے لیے ایوان کی اکثریت یعنی 172 ووٹ لینا ہوں گے۔ اس پورے عمل کی نگرانی سپیکر قومی اسمبلی کو کرنا ہوگی۔
 یاد رہے کہ اپوزیشن پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اس کی طرف سے شہباز شریف ہی وزارت عظمی کے امیدوار ہوں گے۔
نئے وزیراعظم کا انتخاب ہوتے ہی جو لوگ حکومت میں تھے وہ اپوزیشن بینچز پر چلے جائیں گے اور اپوزیشن والے حکومتی بینچز پر آجائیں گے۔ پھر نئی کابینہ تشکیل دی جائے گی۔

شیئر: