Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کے سمندر میں شکار کرنے والے غیرملکی مچھیرے

اللیث میں یجان اور غاص میں مچھلیاں زیادہ پائی جاتی ہیں،محمد بن محمد،القوزین کا خوبصورت ساحل بھی توجہ کا مرکز ہے،اللیث جاتے ہوئے صحرا نے بھی دل لبھادیا

*رپورٹ اور تصاویر:مصطفی حبیب صدیقی*

سمندر اللہ کی بے پناہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے ۔اللہ کے لاکھوں کروڑوں خزانے اس خاموش دنیا میں چھپے ہیں۔ان خزانوںمیں سے ایک خزانہ مچھلی ہے جس کی تلاش کرنے والے مچھیرے اس مرتبہ ہماری رپورٹ کا ہدف بنے۔سب سے پہلے جدہ کے قریب القوزین پہنچے اور مچھیرے بھائیوں سے ملاقات ہوئی۔ شور،حمور ،ناجل سمیت دیگر قیمتی مچھلیاں پکڑنے والے مچھیرے رات دن گہرے سمندر میں گزارتے ہیں ۔کئی مرتبہ تو ہفتہ ہفتہ بھر ہوجاتا ہے اور پھر کئی ٹن مچھلیاں پکڑ کر لاتے ہیں۔القوزین میں ہماری ملاقا ت روہنگیا سے تعلق رکھنے والے مچھیرے سعید ملک سے ہوئی۔ہمارے سوال پر بتانے لگا کہ سمندر سے روزانہ 200کلو تک مچھلی پکڑلیتے ہیں جبکہ مارکیٹ میں100کلو مچھلی فروخت ہوجاتی ہے۔سعید ملک نے بتایا کہ اب وہ بوڑھاہوگیا ہے اور سمندر میں جانے کی ایک عمر ہوتی ہے اور قانون کے مطابق وہ یہ عمر گزار چکا ہے ۔اس لئے اب وہ کشتی پر گہرے سمندر میں نہیں جاتا بلکہ اب اس کے بھتیجے جاتے ہیں ۔ سعید ملک نے بتایا کہ ’’ سعودی عرب میں مجھے 45سال ہوگئے ،32سال تک سمندر کی گہرائی تک مچھلی پکڑنے گیا۔میرے بیوی بچے بھی سعودی عرب میں ہی ہیں اور بچوںکو بھی یہ فن سکھایا ہے۔سعید ملک کے8بچے ہیں۔ سعید ملک جب خود سمندر میں جاتا تھا تو روزانہ صبح 8بجے سے مغرب تک شکار کرتا تھا جبکہ اب وہ اپنے بھتیجوں کو اپنے تجربے کی روشنی میں بھیجتا ہے۔

سعید احمد نے بتایا کہ القوزین میں سمندر سے شور ،حمور اورناجر مچھلیاں پکڑتے ہیں۔زیادہ تک ناجل کی مانگ ہے۔ سعید ملک کا کہنا تھا کہ القوزین کی مارکیٹ میں سستی مچھلی فروخت کررہا ہے معلوم کرنے پر بتایا کہ عام مچھلی 25 یا30ریال کلو میں فروخت کرتے ہیں تاہم ہمارا خیال ہے یہ جدہ کی فش مارکیٹ کے مقابلے میںمہنگی ہے۔یہاں ایک دلچسپ بات بھی معلوم ہوئی سعید ملک نے بتایا کہ چھوٹی نسل کی ناجل مچھلی کی مانگ زیادہ ہے اس لئے وہ 100ریال کلو تک فروخت ہوتی ہے جبکہ ناجر کی بڑی نسل کی مچھلی سستی ہے اور 80ریال کلو تک فروخت ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے مچھیرے جمال سے بھی ملاقات ہوئی۔جمال کا کہناتھا کہ مچھلی قسمت سے ملتی ہے ۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سمندر سے خالی ہاتھ آجاتے ہیں۔پورا دن بلکہ بعض اوقات دو دو دن تک شکار کیلئے جال بچھائے رہتے ہیں اور کوئی مچھلی نہیں پھنستی ۔ جمال کے مطابق ناجل ،تربانی ،حمور،شعور اورلحور مچھلی وہ پکڑلیتا ہے۔جمال نے ہمارے سوال پر بتایا کہ مچھلی پکڑنے کیلئے چھوٹی کشتی میں جاتے ہیں کیونکہ چھوٹی کشتی میں مچھلی کا شکار آسان ہوتا ہے تاہم اگر گہرے سمندر میں جاناہو تو پھر بڑی کشتی یا جہاز تک میں جاتے ہیں۔جمال ابھی کچھ کم عمر لگ رہا تھا شاید اس لئے وہ کہتا ہے کہ ایک دن میں100کلو مچھلی پکڑتے ہیں تاہم سعید ملک تجربہ کار ہیں اس لئے شائد وہ 200کلو تک مچھلی پکڑلیتے تھے۔ القوزین میں مچھلی منڈی میں اچھا خاصہ رش نظر آیا۔

بیوپاریوں کے علاوہ عام شہریوں کی بھی بڑی تعداد مچھلی لینے پہنچی تھی۔القوزین کی مچھلی منڈی کے ساتھ ہی بنگلہ دیش اور روہنگیا کے شہریوںکا مسکن ہے ۔ہم اندر کالونی میں داخل ہوئے تو کراچی کے بنگالی پاڑے یا کالونی کا منظریاد آگیا۔چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں جہاں صفائی کا خاطر خواہ انتظام تھا تاہم مزید بہتری کی گنجائش بھی ہے۔ خیر القوزین میں ہماری تسلی نہ ہوئی تو ہم نے ایک مرتبہ پھر ’’مچھیروں ‘‘ کی تلاش میں جدہ سے 180کلومیٹر دو ر اللیث کا رخ کیا۔اللیث کے سفر کے دوران راستے میں آنے والے صحرا ء میری خاص دلچسپی کا باعث رہے۔صحرا ء میں پنہا ںخاموشی اور ہلکی سی سرگوشی بہت کچھ سمجھا جاتی ہے خیر اس پر پھر کسی وقت تفصیل سے لکھوں گا۔ابھی بات مچھلی کی ہوجائے۔ القوزین میںجہاں مچھیروں سے ملاقات تو ہو ہی گئی تاہم خوبصورت ساحل نے بھی ہمیں اپنی طرف متوجہ کرلیا۔نہایت خوبصورت گرین بیلٹ ،ہریالی،درخت اور صفائی ستھرائی کا انتظام یقینا انتظامیہ کی محنت کا منہ بولتا ثبو ت ہے۔القوزین کی طرح اللیثٖ کا ساحل بھی کافی خوبصورت تھا تاہم القوزین ہمیں زیادہ پسند آیا ضروری نہیں کہ سب کو ایسا لگے اس لئے خود تجربہ کریں تو بہتر ہے۔ ہاں تو بات ہورہی تھی مچھیروں کی ۔اللیث میں ہماری ملاقات مصر کے مچھیروں سے ہوئی۔جب ہم پہنچے تو محمد بن محمد نام کا مچھیرا سمندر سے واپس ہی آیا تھا۔اس کی کشتی سے مچھلیاں گاڑی میں ڈالی جارہی تھیں۔ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ ایک دن ایک رات سمندر میں گزار کر آیا ہے جبکہ دوسری ٹیم ابھی سمندر میں گئی ہے جو دوسرے دن واپس آئے گی۔محمد بن محمد نے بتایا کہ سمندر میں رات دن رہنا کوئی آسان نہیں ہوتا تاہم وہ اس پر خوش تھا کہ اللہ نے اسے اتنا اچھا روزگار دیا ہے۔وہ بتانے لگا کہ اس کی کشتی چھوٹی ہے اس لئے بہت گہرائی میں نہیں جاتا ۔

مصر میں بھی وہ مچھلیاں ہی پکڑتا تھا۔ محمد احمد محمد مچھلیوں کو کشتی سے اتار کر جلدی جلدی برف پیس کر اس میں ڈال رہا تھا۔سمندر سے لانے میں ایک دن ہوگیاجس کے بعد مچھلیوں کو سڑنے سے بچانے کیلئے یہ ضروری تھا جبکہ اس نے بتایا کہ وہ اپنی کشتی میں بھی سمندر کے اندر برف لے کر جاتا ہے اور مچھلیاں پکڑ کر برف میں ڈال دیتا ہے۔یہ آئس باکس ہی ہوتے ہیں تاہم سائز میں کچھ بڑے لگے۔ یمن سے تعلق رکھنے والے مچھیرے محمد ابی بکر سے بھی بات ہوئی۔اس نے بتایا کہ سمندر میں 24گھنٹے گزارنے کے دوران کشتی پر ضرورت کا ہر سامان ہوتا ہے ۔سمندر سے مچھلیاں پکڑتے ہیں اور کشتی پر ہی پکاتے ہیں۔عموماً ’’رزصیادیہ‘‘ پکاتے ہیں ۔یعنی مچھلی چاول۔اس نے بتایا کہ شکار پر جانے سے پہلے کچھ سوکھا کھانے پینے کا ساما ن بھی ساتھ رکھ لیتے ہیں جبکہ دیگر ضروری حاجت کیلئے وسیع وعریض سمندر ہوتا ہے ۔محمد ابی بکر نے بتایا کہ سمندر میں جانے سے پہلے اجازت نامہ لینا ہوتا ہے۔لائف جیکٹ لازمی ہوتی ہے جبکہ سرچ لائٹ ،جال ،کھانے پینے کا سامان اور دیگر حفاظتی انتظامات کا یقین کیا جاتا ہے۔محمد ابی بکر نے انکشاف کیا کہ اللیث کے سمندر سے روزانہ 3/4سو کلو تک مچھلیاں پکڑتا ہے جبکہ بعض اوقات1200کلو تک بھی شکار کرچکا ہے۔

اللیث میں یجان اور غاص مچھلیاں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ اللیث کے ساحل پر درجنوں کشتیاں لگی تھیں جبکہ ساتھ ہی کوسٹ گارڈ کا دفتر تھا جہاں سے اجازت نامہ لیاجاتا ہے۔اجازت نامے کیلئے خاص شرائط ہیں جن میں تجربہ لازمی شرط ہے۔

شیئر: