Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے، سب کو سن کر فیصلہ ہوگا‘

ڈپٹی سپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو غیرآئینی قرار دیے جانے کے معاملے پر نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ’ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے، سب کو سن کر فیصلہ ہوگا۔‘
تحریک عدم اعتماد کو غیرآئینی قرار دینے پر لیے گئے نوٹس پر مزید سماعت کل منگل کو 12 بجے ہو گی۔
پیر کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کیس کی سماعت کی۔
کیس کی سماعت کے دوران فاروق ایچ نائیک نے موقف اپنایا کہ جب عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کی اجازت مل جائے اس کے بعد اسے منظور یا مسترد کرنے کا اختیار سپیکر کے پاس نہیں رہتا بلکہ یہ ایوان کا اختیار ہے کہ وہ ووٹنگ کے ذریعے اس پر فیصلہ کرے۔ 
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کا موقف ہے کہ سپیکر آرٹیکل پانچ کا حوالہ بھی دے تو تحریک عدم اعتماد مسترد نہیں کرسکتا؟‘
سوموار کو چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت  کی۔ 
’ہم صرف آئینی معامالات دیکھیں گے‘
سماعت کا آغاز ہوا تو پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میں اپنی جماعت سے کچھ ہدایات لے کر آیا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پہلے درخواست گزاروں کو سننا چاہتے ہیں البتہ آپ نے کچھ بیان دینا ہے تو وہ دے دیں۔ 
بابر اعوان نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے 21 مارچ 2022 کے فیصلےکا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کویقین دہانی کرائی تھی کہ کسی رکن اسمبلی کو آنے سے نہیں روکا جائےگا۔ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کو نوٹس نہیں کیا تھا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ’جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اس کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ  فی الوقت ہم از خود نوٹس کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔ وہ الگ کیس ہے۔ ہم گذشتہ روز اسمبلی کی کارروائی پر سماعت کر رہے ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کو موجودہ از خود نوٹس کے ساتھ سنا جائے۔ میری استدعا ریکارڈ کر لیں۔ عمران خان نے اجازت دی ہے کہ عرض کروں کہ ہم الیکشن میں جانے کے لیے تیار ہیں تیار ہیں۔
 جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے سیاسی باتیں نہ کریں۔ ہم نے صرف آئینی و قانونی سوالات کے جواب تلاش کرنے ہیں۔ 
رولنگ میں ڈپٹی سپیکر کی بدنیتی شامل تھی
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ سپیکر کو تحریک عدم اعتماد جمع ہونےکے 14 روز میں اجلاس بلانا تھا۔ تحریک جمع ہونے کے بعد 20 تاریخ تک سپیکر نے اجلاس نہ بلانےکی کوئی وجہ نہیں بتائی۔
فاروق نائیک کے دلائل پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’آپ کا کیس تو سپیکر کے اقدام سے متعلق ہے، آپ بتائیں سپیکر نے صحیح کیا یا غلط؟‘
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے سوال کیا کہ تحریک عدم اعتماد پر ڈائریکٹ ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے؟ رولز میں تو ووٹنگ سے پہلے بحث کرانا ضروری تھا، رولز کے مطابق تین دن بحث ہونا تھی، بحث کرائے بغیر ووٹنگ پر کیسے چلے گئے؟

سماعت کے موقعے پر صحافیوں اور وکلا کی بڑی تعداد سپریم کورٹ کے باہر جمع تھی: فوٹو اردو نیوز

فاروق نائیک نے کہا کہ ووٹنگ سے پہلے بحث کرانے کا مطالبہ کیا گیا لیکن سپیکر نے اجازت نہیں دی۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے سپیکر کو کھڑے ہوکر درخواست بھی کی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ بحث کرانے کی اجازت نہ دینا تو پھر پروسیجرل غلطی ہوئی۔ 
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ایسا نہیں بلکہ ڈپٹی سپیکر نہ قرارداد پر بحث بھی نہیں کرائی اور ووٹنگ بھی نہیں کرائی۔ 
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا قرارداد پیش ہو جانے کے بعد بھی سپیکر ووٹنگ کرانے سے انکار کر سکتا ہے؟‘ 
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کون سے مقام  پر سپیکر تحریک کے قانونی یاغیر قانونی ہونے پر رولنگ دے سکتا ہے؟ سپیکرکے پاس کیا کوئی اختیارات نہیں کہ وہ تحریک عدم اعتماد مسترد کرسکے؟ سپیکر آرٹیکل 5  کاحوالہ بھی دے تو تحریک عدم  اعتماد مسترد نہیں کرسکتا؟
جس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ ’سپیکر صرف ایک صورت میں قرارداد مسترد کرسکتا ہے جب وہ آرٹیکل 95 کے مطابق نہ ہو۔ سیکریٹری اسمبلی نے اسے آئین کے آرٹیکل 95 کے مطابق قرار دے کر ایجنڈے کا حصہ بنایا تھا۔‘
 

’قرارداد پیش کرنے کی اجازت ملنے کے بعد پیش بھی ہو گئی تھی۔ جب قرارداد پیش ہو جائے تو اسے صرف ایوان ہی ووٹنگ کے ذریعے مسترد یا منظور کر سکتی ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے نہ قرارداد پر بحث کرائی نہ ووٹنگ کرائی۔ یہی ان کی بدنیتی تھی۔ سپیکر کے پاس ووٹنگ کرائے بغیر اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔‘
عدالت کے کہنے پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ پڑھ کر سنائی۔  جس پر جسٹس منیب اختر نےکہا کہ اسپیکر نے رولنگ کس رول کے تحت دی؟
’عدم اعتماد کی تحریک مسترد کرنے کی رولنگ کس رول کے تحت دی؟ کیا ڈپٹی سپیکررول 28 کے تحت سپیکر کا اختیار استعمال کرتے ہوئے رولنگ دے سکتا ہے؟‘
ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئینی خلاف ورزی ہے: فاروق نائیک
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ’ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کون سے رول کے تحت دی گئی؟ بادی النظر میں ڈپٹی سپیکر نے سپیکر کا وہ اختیار استعمال کیا جو ڈپٹی سپیکر کا اختیار نہیں تھا۔ کیا ڈپٹی سپیکر رول 28 کے تحت رولنگ دے سکتا ہے یا صرف سپیکر کا اختیار ہے؟ 
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ رول 28 کے تحت رولنگ سپیکر خود دے سکتا ہے کوئی اور نہیں، آئین کے تحت ڈپٹی سپیکر صرف اجلاس کی صدارت کرسکتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا تحریک عدم اعتماد پر بحث میں سپیکر تحریک کے غیر قانونی ہونے کی رولنگ دے سکتا ہے؟
فاروق نائیک نے کہا کہ سپیکر کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ تحریک عدم اعتماد غیر قانونی قرار دے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ڈپٹی سپیکرکی رولنگ پروسیجرل خلاف ورزی ہے یا آئینی خلاف ورزی؟ اس پر فارق نائیک نے کہا کہ  ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئینی خلاف ورزی ہے۔ 
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 69 میں سپیکر کو کس حد تک آئینی تحفظ حاصل ہے؟ 

صدر مملکت نے وزیراعظم عمران خان کی تجویز پر اسمبلیاں تحلیل کرنے کی منظوری دی تھی (فوٹو: پی ایم آفس)

فاروق ایچ نائیک نے انڈیا اور پاکستان کی عدالتوں کے حوالے دے کر بتایا کہ ’آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی کے اس حصے پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا جو قواعد کے مطابق ہو۔ جہاں آئین کی خلاف ورزی اور بدنیتی پائی جائے وہاں پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور اس پر عدالتی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔‘
ڈپٹی سپیکر نے 175 ارکان اسمبلی کو بغیر کارروائی کے غدار بنا دیا‘
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ واپس رولنگ پر آتے ہیں۔ یہ بتائیں کہ یہ رولنگ اگر آئینی خلاف ورزی ہے تو کیوں ہے؟ 
اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’ڈپٹی سپیکر نے ایک ایسے خط پر رولنگ دی ہے جو کبھی ایوان میں پیش نہیں کیا گیا۔ کسی عدالت یا کمیشن میں اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اپوزیشن کو اس پر جواب کا موقع نہیں دیا گیا۔
’فواد چوہدری نے تقریر کی اور ڈپٹی سپیکر نے اسے درست قرار دے کر  پہلے سے لکھی ہوئی رولنگ جاری کر دی۔ فواد چوہدری نے جو اسوالات اٹھائے انھیں بھی ایوان میں بحث کے لیے یا کسی فورم پر ان کے جواب تلاش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ڈپٹی سپیکر نے اپنی رولنگ میں 175 ارکان اسمبلی کو بیرون ملک حکومت کے ساتھ سازش میں شامل قرار دے کر غدار ثابت کر دیا ہے۔‘
’اگر اس رولنگ کو غیرآئینی قرار نہ دیا گیا تو ان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں غداری اور مذہب کارڈ پر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘
ہوا میں فیصلہ نہیں دے سکتے: چیف جسٹس
فاروق نائیک نےکہا کہ صدر نے عبوری حکومت کے قیام تک عمران خان کو کام جاری رکھنے کا کہا ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’ڈپٹی سپیکر نے ایک ایسے خط پر رولنگ دی ہے جو کبھی ایوان میں پیش نہیں کیا گیا۔ (فوٹو: اے پی پی)

’ساتھ ہی انھوں نے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کو نگران حکومت کے قیام کے لیے خط لکھ دیا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ آج ہی سماعت مکمل کریں اور فیصلہ دیں۔‘
 جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’یہ ایک اہم آئینی معاملہ ہے اس پر جلدی میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کے بعد میں بھی اثرات ہوں گے۔‘ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم نے دوسرے فریق کو بھی سننا ہے۔ ان کو سنے بغیر ہوا میں فیصلہ نہیں دے سکتے۔
 چیف جسٹس نے ججز سے مشاورت کرکے کارروائی کل تک ملتوی کر دی۔ عدالت اس پر کل پھر 12  بجے سماعت کرے گی۔
عدالت نے رضا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ’ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں پارلیمانی کمیٹی کا بھی ذکر ہے۔ اپوزیشن نے جان بوجھ کر کمیٹی میں شرکت نہیں کی۔ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں سارا معاملہ رکھا گیا تھا۔ آپ نے ہمیں بتانا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی کی کیا قانونی حیثیت ہے؟ پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی کی بنیاد پر ایوان کی کارروائی پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ 
گذشتہ روز چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے حکم نامہ جاری کیا تھا کہ ڈپٹی سپیکر نے آرٹیکل 5 استعمال کرتے ہوئے بادی النظر میں نہ تحقیقات کے نتائج حاصل کیے اور نہ متاثرہ فریق کو سنا۔
’عدالت جائزہ لے گی کہ کیا ڈپٹی سپیکر کے اقدام کو آئینی تحفظ حاصل ہے؟ ‘
سپریم کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ کوئی ریاستی ادارہ اور اہل کار کسی غیر آئینی اقدام سے گریز کرے، صدر اور وزیر اعظم کا جاری کردہ کوئی بھی حکم سپریم کورٹ کے حکم سے مشروط ہو گا۔
عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور دفاع کو امن و امان قائم کرنے کے لیے اقدامات کی رپورٹ جمع کرانے کی بھی ہدایت کی تھی۔

شیئر: