Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی سے انکار کرنے والے جنرل طارق خان کون ہیں؟

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ایک کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے جو پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کی مبینہ سازش کی تحقیقات کرے گا۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق ’خط کی تحقیقات کے لیے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طارق خان کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔‘
جمعے کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’کمیشن کو تحقیقات کے لیے 90 روز کا وقت دیا گیا ہے اور وہ دیکھے گا کہ خط میں حکومت تبدیل کرنے کے حوالے سے دھمکی موجود ہے کہ نہیں۔‘
اس کمیشن کی سربراہی کے لیے حکومت نے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طارق خان کا نام تجویز کیا تھا تاہم انہوں نے کمیشن کی سربراہی سے انکار کردیا۔
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طارق خان نے بتایا کہ ’انہوں نے کمیشن کا سربراہ بننے سے معذرت کرلی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کل تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت چلی جائے گی اور نئی حکومت آتے ہی کمیشن تحلیل کردے گی۔‘
’ایک روزہ کمیشن کا کوئی فائدہ نہیں۔‘
سابق تھری سٹار جنرل طارق خان کون ہیں اور وہ ماضی میں کن عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں؟
طارق خان کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے ٹانک سے ہے اور انہوں نے 1977 میں پاکستان کی فوج میں شمولیت میں اختیار کی تھی۔
تین دہائیوں سے زائد پر محیط فوجی کیریئر میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طارق خان کئی بڑی ذمہ داریوں پر فائر رہے۔
سنہ 2006 میں انہیں بریگیڈیئر سے ترقی دے کر میجر جنرل بنایا گیا تھا اور ملتان میں آرمرڈ ڈویژن کی کمان سونپی گئی تھی۔
خیبر پختونخوا سے منسلک قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں خصوصاً تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف انہوں نے آپریشن زلزلہ، آپریشن شیردل اور آپریشن راہ نجات میں فوج کی کمان سنبھالی۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طارق خان کو 2008 میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کا انسپیکٹر جنرل بنادیا گیا (فائل فوٹو: ایف سی)

جنوبی وزیرستان میں آپریشن زلزلہ کے دوران وہ انفنٹری ڈویژن کی کمان سنبھالے ہوئے تھے اور بعد ازاں 2008 میں انہوں فرنٹیئر کانسٹیبلری کا انسپیکٹر جنرل بنادیا گیا۔
اکتوبر 2010 میں انہیں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی اور اس کے بعد وہ منگلا کے کور کمانڈر اور سینٹرل کمانڈ کے بعد بھی کمانڈر رہے۔
عسکری بینک کی ویب سائٹ پر موجود ان کی پروفائل کے مطابق طارق خان امریکی فوجی ایوارڈ ’لیجن آف میرٹ‘ حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی جنرل ہیں۔
یہ ایوارڈ انہیں امریکی ریاست فلوریڈا میں سینٹ کام میں بحیثیت سینیئر نمائندہ خدمات انجام دینے پر دیا گیا تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طارق خان پاکستان کے جمہوری نظام سے کیوں ناخوش؟
گذشتہ برس دسمبر میں اپنے ایک مضمون میں پاکستان کے نظام پر تنقید کرتے ہوئے طارق خان نے لکھا تھا کہ ’پاکستان میں موجودہ قیادت تین کیٹگری میں تقسیم ہے۔ ایک کرپٹ، دوسری مجبور اور تیسری سمجھوتہ کرنے والی۔‘
انہوں نے مزید لکھا تھا کہ ’موجودہ قیادت نے اپنا منصب عوام کو دھوکہ دے کر حاصل کیا ہے اور وہ آزادانہ طور پر ذاتی انفرادی ایجنڈے پر کام کرتے ہیں۔
سابق لیفٹیننٹ جنرل کے مطابق پاکستان میں موجودہ سیاسی جماعتوں سے بہتری کی کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی چاہے ان کے ارادے کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں۔

طارق خان کے مطابق ’چیف جسٹس، قائد حزب اختلاف اور سروسز چیفس کو نیشنل سکیورٹی کونسل کا حصہ ہونا چاہیے‘ (فائل فوٹو: آئی ایس پی آر)

’فوج یا عدلیہ کی جانب سے کسی بھی کوشش کو سیاسی معاملات میں مداخلت کہا جائے گا اور جہوریت پر حملہ قرار دیا جائے گا۔‘
طارق خان کے نزدیک پاکستان میں اسمبلیوں کو وزیراعظم کی درخواست پر تحلیل کیے جانے کی فوری ضرورت ہے۔
انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ’پاکستان میں پہلے ایک نیشنل سکیورٹی کونسل کو آئین سے بالاتر کردار دیا جائے۔‘
ان کے مطابق ’چیف جسٹس، قائد حزب اختلاف اور سروسز چیفس کو اس کونسل کا حصہ ہونا چاہیے۔‘
طارق خان سمجھتے ہیں کہ نیشنل سکیورٹی کونسل کو گورننس ٹھیک کرنی چاہیے اور نظام میں صدارتی حکومت کے تحت اصلاحات لانی  چاہییں اور وزیراعظم کو اس حکومت میں بحیثیت صدر اختیارات حاصل ہونے چاہییں۔
ان کا مضمون پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں صدراتی نظام حکومت کے حامی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’اس نظام کے لیے ایک ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی رائے لینی چاہیے۔‘

شیئر: