عمران خان اپنے اعلانات اور وعدوں کو پورا کرنے میں کتنے کامیاب رہے؟
عمران خان اپنے اعلانات اور وعدوں کو پورا کرنے میں کتنے کامیاب رہے؟
اتوار 10 اپریل 2022 8:46
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
عمران خان نے کرپشن کے خاتمے اور تبدیلی کے بیانیے پر 2018 کا الیکشن جیتا تھا (فوٹو: شٹرسٹاک)
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 2018 کا الیکشن تبدیلی اور کرپشن کے خاتمے کے بیانیے پر جیتا تھا اور یوں پاکستان کی تاریخ میں عشروں کی دو جماعتی سیاست کے بعد ایک تیسری قوت اقتدار میں آئی تھی۔
حکومت میں آنے کے بعد سابق وزیراعظم نے ان دونوں حوالوں سے کسی حد تک پیش رفت ضرور کی مگر کیا وہ پاکستان میں تبدیلی لانے اور کرپشن کے خاتمے میں کامیاب ہوئے؟
18 اگست 2018 کو وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد عمران خان نے 100 دن کا پلان دیا تھا جس میں پولیس، صحت، تعلیم اور گورننس میں اصلاحات کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ 100 دن کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ منصوبہ بندی کی حد تک کام مکمل ہو گیا مگر عملی طور پر کوئی زیادہ تبدیلی نظر نہیں آئی تھی۔
پالیسیوں پرمستقل مزاجی نہ ہونے کی وجہ سے جب ان پر تنقید بڑھی تو وزیراعظم کو کہنا پڑا کہ ’حالات کے مطابق یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا۔‘
تبدیلی کا پُرکشش نعرہ
تبدیلی کا لفظ عمران خان کی انتخابی سیاست کے ساتھ اس قدر جڑا تھا اور وہ اس تواتر سے اس کا ذکر کرتے تھے کہ ان کے ووٹرز اور عوام کو یقین تھا کہ ان کی حکومت آتے ہی ملک یک دم بدل جائے گا۔
شاید یہی وجہ تھی کہ ان کے قابل اعتماد ساتھی اور وزیروں میں کارکردگی کا اول انعام پانے والے مراد سعید نے تو اتنا بھی کہہ دیا تھا کہ جس دن عمران خان اقتدار میں آئیں گے، اس کے دوسرے دن ہی ملک میں 200 ارب ڈالر بیرون ملک سے آ جائیں گے۔ تاہم ظاہر ہے ایسا نہ ہونا تھا اور نہ ہوا، مگر کچھ شعبوں میں کسی قدر تبدیلی دیکھنے میں ضرور آئی۔
اپنے حالیہ جلسوں میں عمران خان کا دعوٰی تھا کہ ساڑھے تین برسوں میں ان سے اچھی کارکردگی کسی اور حکومت نے نہیں دکھائی۔ جب وہ کارکردگی کی بات کرتے ہیں تو وہ احساس ویلفیئر پروگرام، نوجوانوں کو قرضوں کی فراہمی، یکساں نصاب تعلیم متعارف کروانے اور صحت کارڈ کے ذریعے غریبوں کے مفت علاج کی سہولت کو اپنی بڑی کامیابیاں شمار کرتے ہیں۔
ماہرین چند خامیوں کے باوجود صحت کارڈ منصوبے کی تعریف کرتے ہیں۔ اسی طرح گھروں کے لیے آسان قرض کی فراہمی اور احساس پروگرام کو بھی زیادہ تر سراہا جاتا ہے۔
تاہم پولیس کے نظام اور دیگر ادارہ جاتی اصلاحات کے میدان میں عمران خان اور ان کی حکومت خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔
اسی طرح کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے بھی تبدیلی زیادہ نظر نہیں آئی۔ خود عمران خان نے حالیہ انٹرویوز میں تسلیم کیا کہ ان محاذوں پر وہ زیادہ کچھ نہیں کر سکے جس کی وجہ انہوں نے ان کے کام میں رکاوٹ، کمزور حکومت اور بلیک میلنگ قرار دی ہے۔
نظام میں کتنی تبدیلی آئی؟
تبدیلی کے نعرے میں سب سے بڑی کشش نظام کی تبدیلی ہے جس میں عام آدمی کی عزت میں اضافہ، جائز حقوق کی فراہمی اور اس کو درپیش مسائل کا خاتمہ شامل ہے۔ اس مقصد کے لیے اہم سرکاری محکموں جیسے پولیس، تعلیم، صحت، ریونیو کے شعبوں میں اصلاحات ضروری تھیں۔
تاہم ماہرین کے مطابق جو نظام عمران خان کو ملا تھا اس میں اور جو وہ چھوڑ کر جا رہے ہیں، اس میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
اگر تبدیلی دیکھنے میں زیادہ آئی تو وہ کابینہ اور دیگر محکموں میں بار بار کی جانے والی تبدیلی تھی جس سے پالیسیوں کے تسلسل کو نقصان ہی پہنچا۔
ٹیم بنانے میں مہارت کا دعویٰ کرنے والے عمران خان نے اگست 2018 میں حکومت سنبھالنے کے بعد اپنی کابینہ میں چھ سے زائد مرتبہ تبدیلیاں کیں۔
کابینہ کے آدھے سے زیادہ وزیروں کی فیلڈنگ یعنی وزارت کا قلمدان کم ازکم ایک مرتبہ بدل چکا ہے۔
ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے وزیرِاعظم نے سٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین کو اپنا مشیر مقرر کیا تھا جنہوں نے گزشتہ سال اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
ان کے مطابق ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے 10 سے 12 برس درکار ہوتے ہیں۔
عشرت حسین کے مطابق ان کے دور میں وفاقی حکومت کے ماتحت اداروں کی تعداد 441 سے کم ہو کر 307 ہو گئی ہے۔ اس طرح سرکاری اداروں کے سربراہان کی تقرری کا طریقہکار بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔
اصلاحات کے نتیجے میں اب وفاقی وزارتوں میں ای آفس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے سمیت متعدد اداروں میں تنظیم نو کی گئی ہے۔
مگر ناقدین کے مطابق اصلاحات سے کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی ہے۔ پولیس کے محکمے سے عوامی شکایات ختم نہیں ہوئیں بلکہ صرف صوبہ پنجاب میں ساڑھے تین برسوں میں سات آئی جیز تبدیل ہو چکے ہیں لیکن پولیس کا رویہ تبدیل نہیں ہوا۔
اسی طرح پنجاب میں پانچ چیف سیکرٹریز بھی تبدیل کیے گئے مگر بیوروکریسی میں بہتری نہیں آئی۔
دوسری طرف پی آئی اے ابھی تک خسارے میں ہے جبکہ سٹیل مل کو فروخت کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
کرپشن کے خاتمے کا بیانیہ
تبدیلی کے بعد جو لفظ عمران خان کی تقاریر اور منشور میں سب سے زیادہ دکھائی دیا تھا وہ کرپشن تھا۔ وہ پانامہ کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کو اپنے بیانیے کی فتح قرار دیتے رہے اور ان کا وعدہ تھا کہ اقتدار میں آ کر ملک کو کرپشن سے پاک کر دیں گے۔
عمران خان ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ وہ احتساب پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے چاہے ان کی حکومت ہی چلی جائے۔
اس حوالے سے انہوں نے اقتدار میں آ کر کچھ اقدامات بھی کیے جن میں اندرون اور بیرون ملک سے لوٹے گئے اثاثوں کی حکومتی خزانے میں واپسی کے لیے ایسٹ ریکوری یونٹ کا قیام، نیب اور ایف آئی اے کو فعال بنانا شامل تھے۔
تاہم ان کے اپنے دور میں آٹے، چینی، رنگ روڈ اور ادویات کے سکینڈلز سامنے آئے جس پر اپوزیشن نے انہیں خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم ان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے سکینڈل سامنے آنے پر جہانگیرترین، زلفی بخاری اور کئی کابینہ ارکان اور ساتھیوں کو برطرف بھی کیا۔
اپوزیشن کا احتساب
ماہرین کے مطابق احتساب کے عمل کا تمام تر زور صرف مخالف سیاسی رہنماؤں پر ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہ عمل متنازع ہوا بلکہ ان کے بیانیے کو بھی نقصان پہنچا۔
اقتدار میں آتے ہی انہوں نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں انہیں جیل جانا پڑا، اس کے علاوہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیرداخلہ احسن اقبال سمیت متعدد اپوزیشن رہنماؤں کو جیل بھیجا گیا۔ تاہم ان کے خلاف کیسز ثابت نہ ہونے کے باعث وہ سب جیلوں سے باہر آئے۔
سابق ڈی جی ایف آئی بشیر میمن نے بھی الزام عائد کیا تھا کہ انہیں وزیراعظم کے سیاسی مخالفین پر بلاجواز کیسز بنانے کا کہا گیا اور ایسا نہ کرنے پر جبری رخصت پر بھیجا گیا اور انضباطی کارروائی بھی کی گئی۔
اس طرح سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس بھی احتساب کے عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھا چکی ہیں۔
مرزا شہزاد اکبر کی ناکامی
رواں برس کے آغاز میں وزیراعظم کے طاقتور مشیر برائے داخلہ اور احتساب شہزاد اکبر نے استعفیٰ دیا تو مقامی میڈیا نے بتایا کہ وزیراعظم ان کی کرپشن کے خلاف کارکردگی سے خوش نہ تھے۔
رپورٹس کے مطابق شہزاد اکبر جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے لے کر لوٹی ہوئی رقوم واپس لانے اور مبینہ منی لانڈرنگ میں شریف خاندان اور زرداری خاندان کو ذمہ دار ٹھہرانے تک ہر کیس کو منطقی نتیجے تک پہنچانے میں میں ناکام رہے۔
شہزاد اکبر جو کہ بہ یک وقت تین عہدوں پر فائز تھے، انہیں سابق وزیراعظم کی کابینہ کے طاقتور ارکان میں شمار کیا جاتا تھا۔
اقتدار میں آتے ہی وزیراعظم نے انہیں لوٹی گئی رقوم واپس لانے اور کرپٹ سیاست دانوں کو سزا دلوانے کی ذمہ داری دی تھی۔ تاہم نہ ہی لوٹی ہوئی رقوم واپس لائی جا سکیں اور نہ ہی کسی مبینہ کرپٹ سیاست دان کو سزا ہوسکی۔
اقتدار میں آنے کے ایک ماہ کے اندر ہی پی ٹی آئی حکومت نے ٹاسک فورس تشکیل دی تاکہ بیرونی ممالک سے وہ تمام پیسہ واپس لایا جا سکے جو کرپشن کے ذریعے بھجوایا گیا تھا۔
ٹاسک فورس کی سربراہی شہزاد اکبر کر رہے تھے اور انہیں مبینہ طور پر پاکستان سے لوٹے گئے 200 ارب ڈالرز واپس لانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
تاہم تین برس سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے باوجود شہزاد اکبر کی سربراہی میں کام کرنے والا اثاثہ بازیابی یونٹ (اے آر یو) اور نہ ہی کوئی دوسرا حکومتی ادارہ یہ رقوم بیرون ممالک سے واپس لا سکا۔
شہزاد اکبر کی احتساب ٹیم کسی بھی ملزم کو منی لانڈرنگ کیس میں سزا دلانے میں ناکام رہی۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنشنل کی رپورٹس
کرپشن پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے گزشتہ دو برسوں کی اپنی رپورٹس میں بتایا کہ پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا۔
رواں برس کے آغاز میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 180 ممالک کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس جاری کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کرپشن رینکنگ میں 16 درجے اوپر چلا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی درجہ بندی تین پوائنٹس کم ہونے کے بعد 124 سے گِر کر 140 تک پہنچ گئی۔
گذشتہ 11 برسوں میں یہ پاکستان کی سب سے بُری درجہ بندی رہی ہے۔
تاہم رپورٹ کے اجرا کے بعد گزشتہ رات ’سابق‘ ہوجانے والے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گِل نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ساکھ پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس کو آپ شریف خاندان کی لکھی (رپورٹ) سمجھیں۔‘