عمران خان کی حکومت ختم، عدم اعتماد 174 ووٹوں سے کامیاب
عمران خان کی حکومت ختم، عدم اعتماد 174 ووٹوں سے کامیاب
ہفتہ 9 اپریل 2022 18:55
رپورٹنگ: وسیم عباسی، بشیر چوہدری، زبیر علی خان
جوں جوں اجلاس آگے بڑھ رہا ہے وزرا کے بیانات میں سختی بھی آتی جارہی ہے (فوٹو: اردو نیوز)
سنیچر اور اتوار کی نصف شب کے بعد تحریکِ عدم اتحاد کے حق میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے 174 ووٹ پڑنے کے بعد عمران خان کی وزارتِ عظمٰی ختم ہوگئی ہے۔ پینل آف چیئرمین کے رکن ایاز صادق نے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے کا اعلان کیا۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد وزارت عظمیٰ کے لیے متحدہ اپوزیشن کے نامزد امیدوار شہباز شریف نے کہا کہ ’وہ کسی سے بدلہ لیں گے نہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہوگی۔ مل کر مشاورت سے ملک کو چلائیں گے۔‘
شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ ماضی کی تلخیوں کو بھلاتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔‘
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تحریکِ عدم اعتماد پر سنیچر کو ووٹنگ ہونی تھی۔ لیکن رات گیارہ بجے تک ایسا نہ ہونے کی وجہ سے اسلام آباد میں مختلف افواہیں بھی گردش کرنے لگیں۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پانچ معزز جج بھی عدالتِ عظمٰی پہنچ گئے کیونکہ ایسی خبریں تھیں کہ شاید انھیں توہینِ عدالت کی کارروائی کی سماعت کرنی پڑے۔
اس سے پہلے کے دو گھنٹوں کے دوران کئی ڈرامائی واقعات ہوئے جن میں نصف شب کے قریب سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کیا۔ اس اعلان سے قبل سپیکر اور کئی وزراء کی سابق وزیرِاعظم عمران خان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ کابینہ کا آخری خصوصی اجلاس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
اسد قیصر نے استعفیٰ دیتے وقت کہا کہ وہ 26 برس عمران خان کے ساتھ رہے اور اب سپریم کورٹ کے احکامات اور دھمکی آمیز مراسلے کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مستعفی ہونے کے بعد سپیکر کی کرسی پینل آف چیئر ایاز صادق کے حوالے کی۔
اسد قیصر کے مستعفی ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی حکومتی ارکان اپنے بینچوں سے اٹھ کر ایوان سے چلے گئے۔
سپیکر کی جانب سے اپوزیشن کی پیش کردہ عدم اعتماد کی تحریک پڑھی گئی جس کے بعد رائے شماری کی گئی۔
سنیچر کو دن ساڑھے دس بجے شروع ہونے والا اجلاس وقفے وقفے سے جاری رہا۔ اور اس دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان ایوان میں تقاریر کرتے رہے۔
افطار کے بعد اجلاس شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے کہا کہ ’ہم نے ایک گھنٹے سے ایک خاتون وزیر کی تقریر برداشت کی، براہ مہربانی اب اپوزیشن رہنماؤں کو بات کرنے دیں۔‘
پینل آف چیئرمین کے رکن امجد نیازی نے فلور وفاقی وزیر حماد اظہر کو دیا تو اپوزیشن نے ووٹنگ ووٹنگ کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور شدید نعرے بازی کی۔
اپوزیشن کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے امجد نیازی نے اجلاس میں نماز عشا کا وقفہ کرتے ہوئے اسے 9:30 تک ملتوی کیا۔
اجلاس ملتوی ہونے کے بعد اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا مشاورتی اجلاس شروع ہوگیا جس میں شہباز شریف، بلاول بھٹو، خواجہ آصف، سعد رفیق، نوید قمر، خورشید شاہ، نوید قمر اور دیگر شریک ہوئے۔
اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں تاخیر کے حوالے سے مشاورت کی گئی۔ سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے آئینی اور قانونی آپشنز پر بریفنگ دی۔
اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ کے آخری اجلاس کی صدارت کی۔
اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’پوری اپوزیشن آئین شکن ہے۔ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، کوئی ادارہ پارلیمنٹ سے بالاتر نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم الیکشن کی طرف چلے جاتے تو یہ بحران ہی ختم ہو جاتا۔ سیاست دان آپس میں مل کر بیٹھیں اور شفاف الیکشن کا فریم ورک طے کریں، یہ سارا ڈرامہ ختم ہو جائے گا۔ خچروں کا بازار لگا کر کرائسز ختم نہیں ہوتے۔‘