پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائی کورٹ نے وزیر اعلیٰ کی نشست پر فوری انتخاب کروانے کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر اور وزارت اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز نے درخواست دائر کی تھی کہ صوبے میں جان بوجھ کر وزیر اعلیٰ کے چناؤ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔
کیس کی دوسرے روز سماعت کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر بھٹی نے ریمارکس دیے کہ اگر فریقین کسی نتیجے پر نہیں پہنچیں گے تو عدالت خود ہی تنیجہ اخذ کر لے گی۔
چیف جسٹس دو روز سے دائر درخواستوں پر طویل سماعت کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
سپیکر پنجاب اسمبلی نے ڈپٹی سپیکر کے تمام اختیارات واپس لے لیےNode ID: 659126
-
سینکڑوں پولیس اہلکاروں کے درمیان بے اختیار ’وزیراعلیٰ پنجاب‘Node ID: 659271
-
وزیراعلٰی کا انتخاب، فریقین کو پیر تک جواب جمع کرانے کا حکمNode ID: 659546
سماعت کے دوران مسلم لیگ ن کے وکیل نے پیشکش کی کہ اسمبلی میں چار ایسے ارکان ہیں جن کا کسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان پر مشتمل پینل تشکیل دے دیا جائے۔
مسلم لیگ ق کے وکلا نے اعتراض کیا اور نشاندہی کی کہ جن چار ارکان اسمبلی کے نام لیے ہیں ان کی سیاسی وابستگی ہے۔ ق لیگ کے وکلا نے بتایا کہ جگنو محسن نے حمزہ شہباز کی موجودگی میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی ہے جبکہ مسلم لیگ ق کے بیرسٹر علی ظفر نے نشاندہی کی کہ ڈپٹی سپیکر خود پارٹی بن گئے ہیں اور وہ اجلاس کی صدارت نہیں کرسکتے۔
چیف جسٹس امیر بھٹی نے ریمارکس دیے کہ یہ دیکھنا ہے کہ شفاف انتخاب کیسے ہو سکتا ہے اور ایسا شخص ہونا چاہیے جس پر دونوں کو بھروسہ ہو۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے باور کرایا کہ اُن کی کسی کے ساتھ ہمدردی نہیں ہے اور وہ راستہ درکار ہے جس سے معاملہ حل ہو۔
سماعت کے دوران مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ اور ق لیگ کے وکیل عامر سعید کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔
