Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’35 ملین افراد بھوک کے دہانے پر لیکن طالبان کی واحد ترجیح خواتین کے کپڑے‘

طالبان کے سپریم لیڈر کی جانب سے خواتین کے برقع پہننے کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان میں طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے افغان خواتین پر مکمل پردہ کرنے کی پابندی لگانے پر دنیا بھر خصوصاً افغان شخصیات کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔
گذشتہ روز ہبت اللہ اخونزادہ کی جانب سے جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ خواتین خود کو سر سے پاؤں تک ڈھکنے کے لیے چادر پہننی چاہیے کیونکہ یہی روایتی اور باعزت طریقہ ہے۔ سپریم لیڈر کی جانب سے جاری ہدایات دارالحکومت کابل میں ایک تقریب کے دوران پڑھ کر سنائی گئیں۔
حکم نامے کے مطابق ’ان خواتین کو اپنا منہ بھی ڈھانپنا چاہیے جو نہ بہت زیادہ بڑی عمر کی ہیں اور نہ ہی جوان تاکہ نامحرم مردوں سے ملاقات کے دوران کسی نامناسب رویے سے بچا جا سکے۔‘ 
طالبان کے سربراہ کی جانب سے خواتین پر لگائی جانے والی پابندی پر تنقید کرتے ہوئے سابق افغان رکن اسمبلی فوزیہ کوفی کا ایک ٹویٹ میں کہنا تھا کہ ’35 ملین افراد بھوک کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن طالبان کی واحد ترجیح صرف خواتین کے کپڑے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’افغان خواتین نے ہمیشہ اسلامی اصولوں کے مطابق کپڑے پہنتی ہیں۔ برقع ایک روایتی لباس ہے اور یہ ہمیشہ انفرادی انتخاب رہا ہے اور اسلام میں اسے لازمی قرار نہیں دیا گیا۔‘

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل آنتونیو گوتیرس نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’میں طالبان سے ایک بار پھر درخواست کروں گا کہ افغان خواتین اور لڑکیوں سے کیا گئے وعدے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔‘

امریکی خصوصی مندوب رینا امیری نے طالبان پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں افغانوں اور بین الاقوامی برادری کی صداؤں کا ساتھ دیتے ہوئے کہوں گی کہ ایسے جابرانہ اقدامات کو ختم کیا جائے، لڑکیوں کے سکول کھولے جائیں، خواتین کو کام کرنے اور زندگیاں جینے دیا جائے۔‘

افغان صحافی لطف اللہ کہتے ہیں کہ طالبان کی جانب سے اس پابندی کی افغان کلچر اور تاریخ میں کوئی جگہ نہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ افغان خواتین سے ان کا حجاب کے انتخاب کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کے حق کو چھینا جا رہا ہے۔

سابق کینیڈین وزیر خارجہ میلانی جولی نے اپنی ایک ٹویٹ میں طالبان سپریم لیڈر کی جانب سے صادر کیے جانے والے حکم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کی حفاظت کی جانی چاہیے اور ہم طالبان کے الفاظ نہیں بلکہ عملی اقدامات کو دیکھیں گے۔‘

خیال رہے کہ طالبان کے گذشتہ دور حکومت میں بھی خواتین پر سخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
چند دن پہلے طالبان نے ڈرائیونگ انسٹرکٹرز کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس جاری نہ کریں۔
افغانستان کے شمال مغربی شہر ہرات میں ویسے تو خواتین کا گاڑیاں چلانا معمول کی بات ہے لیکن طالبان کی جانب سے جاری نئی ہدایات کے بعد خواتین ڈرائیورز خدشات کا شکار ہوگئی ہیں۔
ہرات کے ڈرائیونگ سکولوں کے نگران محکمے ٹریفک مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ جان آغا اچکزئی نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ طالبان نے زبانی طور پر خواتین ڈرائیوروں کو لائسنس جاری کرنے سے منع کیا ہے، تاہم پہلے سے ڈرائیونگ کرنے والی خواتین کو روکنے کے لیے کسی قسم کی ہدایات نہیں دی گئی ہیں۔

شیئر: