Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مستقبل نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے: ماریہ میمن کا کالم

اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان سوشل میڈیا پر بھی متحرک ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سیاست ہمیشہ سے منجھے ہوئے تجربہ کار کھلاڑیوں کا میدان رہا ہے۔ نوجوانوں کو اناڑی اور نا تجربہ کار سمجھا جاتا رہا ہے۔ تجربہ بھی وہ جو گلی محلے کی سیاست سے شروع ہو کر اسمبلیوں میں پہنچنے کا نام ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کا سیاست سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا تھا۔
موروثیت کے باعث سیاست ایک خاندانی پیشہ بھی تھا اور کافی حد تک اب بھی ہے۔ اس لیے کسی متوسط طبقے کے پڑھے لکھے نوجوان کے لیے پاکستانی سیاست ایک اجنبی اور کٹھن میدان تھا۔
مگر اب صورتحال بہت حد تک بدل چکی ہے۔ مکمل نہیں مگر بہت حد تک۔ آج کا نوجوان سیاست کے بارے میں باخبر بھی ہے اور متفکر بھی۔ اس کی اپنی ایک سیاسی سوچ بھی ہے اور سیاسی رائے بھی۔ وہ اپنی سیاسی رائے کا بے لاگ اور بے باک اظہار کرتا ہے۔ اس کی سوچ اور رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس نوجوان کا سیاسی میدان بھی جدید ہے اوروہ میدان ہے سوشل میڈیا کا۔ ٹوئٹر، فیس بک اور یو ٹیوب سے شروع ہو کر ٹک ٹاک اور انسٹا گرام، سب جگہ نوجوان ہی رائے عامہ بنا رہے ہیں۔
سب سے اہم اور قابل ذکر بات نوجوان خواتین کا سیاسی شعور ہے۔ خواتین کو تو عام روایتی گھروں میں بھی سیاست سے بے خبر سمجھا جاتا مگر اب سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان خواتین کی بھی سیاسی رائے ہے جس کا وہ کھلم کھلا اظہار کرتی ہیں۔
عمران خان وہ پہلے اور واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے نوجوانوں کو سیاست میں شامل کیا یا یہ کہنا چاہیے کہ نوجوانوں کے سیاسی شعور کو اپنی سیاسی تحریک کا محور بنایا۔
انہوں نے وہ زبان اور وہ علامتیں استعمال کیں جو نوجوانوں کے خیالات کے قریب تر تھیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو متحرک کیا۔ اس سارے عمل کے دوران انہوں نے پاکستان کی سیاست کا نقشہ بنیادی طور پر بدل دیا۔

پاکستان تحریک انصاف نے نوجوانوں کو سیاست میں متحرک کرنا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس میں سب سے قابل ذکر تبدیلی سیاست کی تشکیل میں آئی۔ پہلے سیاست الیکشن کے ساتھ منسلک تھی۔ الیکشن کے بعد عام ووٹر سکون سے بیٹھ جاتا تھا، سیاستدان اپنے جوڑ توڑ کرتے اور اگلے الیکشن کا انتظار کرتے۔ پی ٹی آئی کا نوجوان سال کے 365 دن اور دن کے 24 گھنٹے متحرک ہے۔ وہ ہر خبر پر تبصرہ کرتا ہے، ٹرینڈ بناتا ہے اور مخالفین پر تابڑ توڑ تنقید کرتا ہے۔
عمران خان نے ایک اور نا ممکن کو ممکن بنایا۔ وہ تھا لیپ ٹاپ اور کی بورڈ سے نوجوانوں کو نکال کر سڑکوں پر لانا۔ شروع میں روایتی سیاسی کارکن پی ٹی آئی کے نوجوانوں کو صرف کی بورڈ کے کھلاڑی کا طعنہ دیتے رہے۔ اب سڑک پر آ کر انہوں نے یہ تاثر بھی غلط ثابت کر دیا ہے۔
عمران خان کا نوجوانوں کو سیاسی کارکن بنانا اپنے آپ میں ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ستر سے اوپر برس کا لیڈر کیسے ٹین ایجرز سے گفتگو کرتا ہے اور ان کو متاثرکر لیتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ بطور کرکٹر اور ہیرو کے ان کی ایک اپیل ہے۔
مگریہ بھی حقیقت ہے کہ 1992 میں ابھی ان کے زیادہ تر نوجوان پیرو کار  پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب عمران خان کرکٹ سے ریٹائر ہو گئے۔ کرکٹ سے زیادہ یہ رول ان کی کامیاب حکمت عملی کا ہے اور اس کوشش کا ہے جو وہ نوجوانوں کو انگیج کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ ٹوئٹر سپیس ہو یا پوڈکاسٹ وہ سب جگہ سب سے پہلے اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔

ناقدین پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی موروثی سیاست پر تنقید کرتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری طرف اگر ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں کو ہی دیکھا جائے تو ان کی قیادت یا تو بزرگ ہے اور یا اپنے اوپر بزرگی طاری کیے ہوئے ہے۔ بلاول بھٹو خود نوجوان ترین ہیں مگر ان کا کوئی ایسا پیغام یا انداز نہیں جو نوجوانوں کو متاثر کر سکے۔
موروثی سیاست سے نوجوان بیزار ضرور ہوتے ہیں مگر اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ مریم نواز کی مقبولیت میں انہی عناصر مثلاً سوشل میڈیا اور عوام سے براہ راست رابطے کا رول نظر آتا ہے مگر مریم نواز کے پاس بھی آج کے پڑھے لکھے نوجوان کے لیے کوئی سیاسی بیانیہ نہیں ہے۔
قیادت کے علاوہ پارٹی میں ٹیم سے بھی فرق کا اندازہ ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی میں پھر بھی کم از کم درجن بھر نسبتاً نوجوان کابینہ تک پہنچے مگرموجودہ حکومت میں وہی پرانے اور بزرگ چہرے نظر آتے ہیں۔ محترمہ حنا کھر اور بلاول بھٹو ہیں مگر وہ نوجوانوں کے بجائے سینیئر سیاسی لیڈر کے طور پر زیادہ پیش کرتے ہیں۔
ہم  چاہیں یا نا چاہیں مستقبل نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے، سیاست کا بھی اور ملک کا بھی۔ سیاست کے لیے بہتر یہ ہے تمام جماعتیں نوجوانوں کو بھرپور موقع دیں۔ اور موقع صرف اپنے خاندانوں میں سے نہیں بلکہ دیگر شعبہ ہائے زندگی سے یوتھ کو آگے لائیں۔
پی ٹی آئی کی مخالف سیاسی جماعتوں کو نوجوانوں کے طرز عمل اور انداز گفتگو پر اعتراض ہے۔ ان کا شکوہ بجا بھی ہو سکتا ہے مگر اس کا حل نوجوانوں سے ڈائیلاگ میں ہے ان کو نظر انداز یا ان پر تنقید کرنے میں نہیں۔ ہوسکتا ہے کچھ جگہ ان کی سوچ میں جذباتیت اور نا پختگی ہو مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کی انرجی اور جوش سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ اگر نوجوان سیاست سے مایوس یا متنفر ہو گئے تو اس کا نقصان سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی ہو گا۔

شیئر: