Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آسمان سے گِرا، ماریہ میمن کا کالم

حکومتی جماعتوں نے متحد ہو کر چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا عہد کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
سابقہ اپوزیشن بالآخر اقتدار میں آ چکی ہے۔ درجن بھر پارٹیاں دو ووٹوں کی اکثریت سے اقتدار کی مسند پر بیٹھ چکی ہیں۔ ابھی سے قرائن یہ نظر آتے ہیں کہ یہ مسند کانٹوں کی سیج سے کم نہیں ہو گی۔
پی ڈی ایم کی حکومت سیاسی، معاشی اور انتظامی مسائل کے انبار میں گھری ہوئی ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے ان کے مسائل ذاتی اور قانونی تھے۔ مقدمات اور گرفتاریوں کا سامنا تھا۔ اس اعتبار سے تو ان کے لیے تبدیلی مثبت ہونی چاہیے تھی مگر مسائل کچھ ایسے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکتی نظر آ رہی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اس قبل از وقت اقتدار کی پی ڈی ایم کو ضرورت کیا تھی؟ 
سوائے پیپلز پارٹی کے باقی تمام اور بالخصوص نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان نئے انتخابات کے حق میں تھے۔ سب سے پہلے تو ان دیکھے کا خوف ان پارٹیوں کو اقتدار کی طرف دھکیل کر لے آیا۔
عمران خان اگر حکومت میں رہتے تو پتہ نہیں اور کیا کر دیتے، یہی وہ خدشہ تھا جس کی وجہ سے انہوں نے ان مخدوش ترین سیاسی اور معاشی حالات میں حکومت لی۔ پھر اس کے بعد بھی اصل منصوبہ تو کچھ مہینے بعد الیکشن کا تھا۔ اس میں بھی عمران خان کی جارحانہ اور غیر متوقع سیاست سے جو بیانیہ بنا اس نے اتحادیوں کو فوری الیکشن سے بھی ڈرا دیا۔ اب وہ واضح طور پر اسمبلی کی پوری مدت تک اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔ 
یہاں پہ سامنے آتے ہیں سیاسی، معاشی اور انتظامی چیلنجز۔ سب سے پہلے تو مخلوط حکومت چلتے چلتے ہی لڑکھڑا رہی ہے۔ 
 ن لیگ کی تاریخ دیکھیں تو ان کو اکیلے اقتدار کی عادت ہے۔ آصف زرداری جوڑ توڑ کے ماہر ہیں اور زیادہ پارٹیوں کو وہی کھینچ کھانچ اور بہلا پھسلا کر لائے ہیں۔

عمران خان نے الیکشن کمیشن کے دفاتر کے باہر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

شہباز شریف کوشش تو کر رہے ہیں مگر ان کی بے چینی صاف ظاہر ہے۔ کابینہ کے اعلان میں ہی ایک ہفتے سے زیادہ لگ گیا۔ ابھی بھی کابینہ مکمل نہیں ہو سکی۔ کئی وزیروں نے حلف لیا مگر ان کے قلمدانوں کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ حتیٰ کے ن لیگ کی اندر سے شاہد خاقان عباسی ابھی تک کابینہ میں نہیں ہیں۔
پنجاب میں حکومت کی تشکیل اسی طرح چیلنج ہو گا۔ حمزہ شہباز کی نامزدگی کے بعد ن لیگ ویسے ہی بیانیے کے میدان میں دباؤ میں ہے اوپر سے پنجاب میں آدھ درجن کے لگ بھگ چھوٹے گروپ علیحدہ ہیں۔ سیاسی بے یقینی کا چیلنج اس حکومت کا زیادہ وقت بھی لے گا اور محدود ترین اکثریت ایک لٹکتی تلوار علیحدہ رہے گی۔  
سیاسی چیلنج مشکل ہے تو معاشی مسائل سنگین ترین۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کریں تو بجلی اور ایندھن میں مزید مہنگائی کرنے پڑے گی۔ ن لیگ کا مستقل بیانیہ ہی ان کی کارکردگی ہے اور وہ گورننس اور مہنگائی کے مسائل کے حوالے سے ہی متحرک رہے ہیں۔
اب اگر بجٹ عوام کے لیے بری خبریں لایا تو عمران خان جو امپورٹد حکومت اور سازش کو لے کر فرنٹ فٹ پر کھیل رہیں ہیں اس کے بعد مہنگائی پر بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لے گیں۔

گورنر پنجاب نے نو منتخب وزیراعلیٰ کا حلف لینے سے انکار کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

معاشی میدان میں مسئلہ صرف مہنگائی نہیں بلکہ بے روزگاری، زر مبادلہ اور ٹیکس کے محصولات میں اضافے کا بھی ہے۔ ڈالر کی قدر میں کچھ ابتدائی کمی ہوئی مگر اس کے بعد پھر حالات جوں کے توں ہیں۔
اصل چیلنج یہ بھی ہے کہ اس سب کچھ کے لیے وقت صرف ایک سال اور کچھ مہینے ہے۔ یہی وہ جوا ہے جو اتحادیوں خصوصاً ن لیگ نے کھیلا ہے۔ اس ایک سال پر گویا اگلے پانچ سال کا انحصار ہے۔ 
عوام کو معاشی میدان کے ساتھ انتظامی ریلیف کی بھی توقع ہے۔ براہ راست گورننس صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی اپنے تمام تر جارحانہ بیانیے کے ساتھ بھی عثمان بزدار کی صوبائی حکومت کا دفاع نہیں کر سکی۔
مسلم لیگ ن نے ہمیشہ اپنی سروس ڈیلیوری کو اپنے پلس پوائنٹ کے طور پر پیش کیا ہے۔ حمزہ شہباز شریف نے اپنے والد کی وزارت اعلیٰ میں معاونت تو کی ہے مگر کیا وہ اس سطح پر خود پرفارم کر سکیں گے۔ اس پر کافی سوالیہ نشان ہیں۔

عمران خان نے اسلام آباد کی جانب مارچ کی کال دے رکھی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

فی الحال تو ان کے انتخاب اور حلف کا مسئلہ ہی حل نہیں ہو سکا ہے۔ پنجاب میں ان پر پرفارمنس پریشر انتہائی ہے۔ جس طرح معاشی میدان اہم ہے اس طرح پنجاب حکومت کی پرفارمنس پر اگلے الیکشن کا دارومدار ہے۔
دوسری طرف عمران خان بھی ان کو چین نہیں لینے دیں گے۔ اگر پی ٹی آئی نے اجتجاج کی کال دی تو گھمسان کا رن پنجاب ہی میں پڑے گا۔ کسی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں پی ٹی آئی تحریک کو بھی موقع مل جائے گا وہ حکومت کو مزید آڑے ہاتھوں لیں۔ 
حکومت کے لیے سیاسی، معاشی اور انتظامی چیلنج گھمبیر ہیں۔ آسمان سے گر کر وہ کئی کھجوروں میں اٹک چکے ہیں۔ سابقہ حکومت اور موجودہ اپوزیشن ان کے لیے صرف ایک ڈراؤنا خواب نہیں بلکہ حقیقی خطرہ ہے اب دیکھتے ہیں کہ وہ ان چیلنجر سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں۔

شیئر: