جمعیت العلمائے اسلام کو یہ پیغام دیدیا کہ انکی مساجد اور مدارس میں ایسے خطبات کی اجازت نہیں جو ریاست کی عملداری کو چیلنج کرتے ہوں
*ارشادمحمود*
نوشہرہ میں جمعیت العلمائے اسلام کی صد سالا تقریبات میں مولانا فضل الرحمان کا خطاب سن کر ایسا لگا کہ ان کا ظہورِ ثانی ہوا ہے۔ بلا شبہ یہ ایک تاریخی اجتماع تھا جس کے ملکی سیاست پردوررس اثرات مرتب ہوں گے اور کافی وقت تک اس کی گونج سنائی دیتی رہے گی۔ یہ اجتماع ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا جب پاکستان کیلئے معاشی امکانات کا ایک نیا باب کھلنے کا منتظر ہے اورقسمت20 کروڑ لوگوں پر مہربان ہوا چاہتی ہے لیکن پاکستان کے داخلی حالات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ رسی جل گئی ہے لیکن بل نہیں گیا۔ دہشتگرد پلٹ پلٹ کر وار کرتے ہیں اور ان کے بیانیے کا راگ الاپنے والے بھی تھکے نہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت نے اپنا سارا وزن ریاست پاکستان کے پلڑے میں ڈال کر ملکی تاریخ میں زبردست سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی کو قومی مفادات اور مسلمانوں کے وسیع تر سیاسی اور معاشی مفادات سے ہم آہنگ کرکے ایک جہاندیدہ سیاستدان اور مذہبی لیڈر ہونے کا ثبوت دیا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ ان کے اکابرین نے پاکستان کی مخالفت کی تھی‘ ان پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا فضل الرحمان اس تلخ تاریخی حقیقت کودفن کرچکے ہیں۔ وہ پاکستان کو ہی اپنی سیاست اور تبلیغ کا اوڑھنا بچھونا بنا چکے ہیں تو ان پر طنز کے نشتر چلانا اور گڑے مردے اکھاڑنا غیر ضروری ہے۔ اس اجتماع میں مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت نے دہشتگردی کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی ہر شکل کو اگر مگر کے بغیر مسترد کرنے کا غیر معمولی اعلان کیا۔ اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ ملکی نظام میں تبدیلی آئین اور دستور کے مطابق چاہتے ہیں۔ وہ کسی بھی فرد یا تنظیم کو اونرشپ نہیں دیں گے جو تشدد کو بطور سیاسی ہتھیار کیاستعمال کرتی ہو۔ چنانچہ وابستگان جمعیت العلمائے اسلام کو یہ پیغام دے دیا کہ ان کی مساجد اور مدارس میں ایسے خطبات کی اجازت نہیں جو ریاست کی عملداری کو چیلنج کرتے ہوں یا ملک کے وسیع تر مفادات سے متصادم ہوں۔ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ مولانا کے زیراثر وفاق المدراس کے زیراہتمام 18 ہزار600 مدارس قائم ہیں۔ 20 لاکھ طلبہ ان مدارس میں زیرتعلیم ہیں۔
اس فوج ظفر موج کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ اگر کوئی دہشتگرد ان کے اداروں سے پکڑا گیا تو مولانافضل الرحمان ان کی اعانت کو دستیاب نہ ہوں گے۔ پاک چین اکنامک کوریڈور پر بھی مولانا نے صائب موقف اپنایا۔ وہ اسے پاکستان کی ترقی کیلئے نہ صرف نا گزیر قراردیتے ہیں بلکہ انہوں نے پاک چین دوستی کو مضبوط بنانے میں ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ بہت ساری قوتیں مذہبی فکر رکھنے والے طبقات کو مسلسل اکسا رہی ہیں کہ وہ سنکیانگ کے مسلمانوں کی مدد کی خاطر چین کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ مولانا فضل الرحمان نے ان خطرات کو قبل ازوقت بھانپتے ہوئے ایسے امکانات کی ابتدا ہی میں بیخ کنی کردی۔ اس اجتماع کے ذریعے مولانافضل الرحمان نے مغربی ممالک اور بالخصوص مغربی رائے عامہ کو بھی دوستی اور خیر سگالی کا پیغام دیا ہے۔ اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت کاروں کیساتھ گفتگو میں مولانا نے جو باتیں کیں کانوں میں رس گھولنے والی ہیں۔ انہوں نے سفارت کاروں کو یقین دلایا کہ وہ مغرب کی سیاسی اور معاشی حکمت عملی سے اختلاف لیکن وہ مکالمے اور اشتراک پر یقین رکھتے ہیں۔
بین المذاہب ہم آہنگی کے علمبردار ہیں اور غیر مسلموں کیخلاف کوئی عناد نہیں رکھتے۔ عمران خان اور مولانا سمیع الحق کے سوا تمام قومی رہنماؤں کو بھی اجتماع میں مدعو کیا گیا جو کہ سیاسی رواداری قائم کرنے کی ایک عمدہ مثال ہے بلکہ دیگر جماعتوں کو بھی مولانا کی تقلید کرنی چاہیے تاکہ باہمی اشتراک کی راہیں وا ہوسکیں۔ اجتماع کی اشتہاری مہم بڑی پیشہ ورانہ مہارت سے ڈیزائن کی گئی۔ یہ محض جلسے میں حاضری بڑھانے کی ایک کوشش نہ تھی بلکہ یہ مہم جے یوآئی اورمولانا فضل الرحمان کو ایک اعتدال پسند، جمہوریت دوست اور امن کے علمبردار کے طور پر متعارف کرانے کی سیاسی حکمت عملی کا ایک حصہ نظر آتی ہے۔ جمعیت العلمائے اسلام نے ابھرتے ہوئے متفقہ قومی بیانیے کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالنے کی سعی کی ہے۔
ایسا بیانیہ جو ملک کو عالمی دنیا سے جوڑتا ہے نا کہ عالمی تنہائی کا شکارکرتاہے۔جو ملک کے اندر مختلف قومیتوں اور مذاہب کو ایک صفحہ پر جمع کرتاہے نہ کہ انہیں باہم دست وگریباں کرتاہے۔ مولانا ایک رجائیت پسند سیاستدان ہیں۔ وہ مشکل سے مشکل تر حالات میں بھی راستہ نکال لیتے ہیں۔ ان کا ہاتھ بدلتے ہوئے حالات کی نبض ہر ہوتاہے۔ سیاست میں بال برابر تعلق کو نبھانے اور اس سے سیاسی فوائد کشید کرنے کے فن میں بھی طاق ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ چند برسوں میں دہشتگردوں اوران کے مربیوں کیخلاف بھرپور جنگ لڑی۔ خون بہت بہا اور بیش بہا انسانی جانوں کی قربانیاں پیش کیں گئیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بیانیے کی جنگ ابھی تک جیتنی نہیں جاسکی۔اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ممبراور محراب حکومت کے ساتھ نہیں تھا۔ پھر مغربی دنیا کی دوغلی پالیسیاں اور ہند کا جارہانہ لب ولہجہ بھی شدت پسندوں کے سیاسی نقطہ نظر کو تقویت دینے کا سبب بنتاہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے بھی گزشتہ چند ماہ میں روایتی قدامت پسندی کا لبادہ اتار پھینکا اور پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح کے تصورات کے مطابق ایک جدید ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ ہولی کے تہوار میں نہ صرف شرکت کی بلکہ ایک تاریخی تقریر بھی کی۔غیر مسلموں کو یقین دلایا کہ ریاست ان کے حقوق کی حفاظت کرے گی۔ نوازشریف کی حالیہ2تقاریر اورمولانا فضل الرحمان کے بیانات سے یہ امید بندھی ہے کہ اب ریاست اور مذہبی جماعتیں مل کر شدت پسندی کا مقابلہ کریں گی۔اسی ماحول کا اثر ہے کہ کچھ شدت پسند گروہ قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے پل تول رہے ہیں۔ خاص کر جماعت اہلسنت و الجماعت اور سپاہ صحابہ اپنی علیحدہ شناخت ختم کرنے اور جے یو آئی میں شامل ہونے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔اگر ایسا ممکن ہوگیا تو یہ ایک بڑی اہم پیشرفت ہے کیونکہ ان دونوں گروہوں کا ملک میں ہونے والے مسلح تصادموں میں بڑا حصہ رہاہے۔ آخری بات: مولانافضل الرحمان نے اپنی پارٹی کو جس راہ پر گامزن کیا ہے وہ ایک پر پیج راستہ ہے۔ انہیں پارٹی کے اندر سے بھی بغاوت کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔افغان جہاد سے لے کر کل تک پوری قوم اور بالخصوص مذہبی طبقے کو ایک ہی درس دیا گیا کہ اس نے لڑنا اور مرنا ہے کیونکہ حق وباطل کا معرکہ برپا ہے۔ اب لڑاکوں کی اس فوج کو امن کی فاختہ بننے میں کچھ وقت تو لگے گا لہذا تحمل سے اس سفر کو طے کرنا ہوگا۔ ان تمام جماعتوں اور سیاستدانوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے جو شدت پسندی کے راستے میں چٹان بن کرکھڑے ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی فرقے، رنگ یا نسل سے ہو۔