Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریوپول میں 700 یوکرینی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے: روس کا دعویٰ

یوکرین کے ملٹری ترجمان کا کہنا ہے کہ پوری کوشش ہے کہ اپنے فوجیوں کو بچایا جائے (فوتو: روئٹرز)
روس نے دعوٰی کیا ہے کہ اس کے زیرکنٹرول شہر ماریوپول میں مزید 700 کے قریب یوکرینی فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں جبکہ دوسری جانب امریکہ کیئف میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یوکرین نے ماریوپول میں اپنے فوجیوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا تھا تاہم اس کے باوجود ابھی تک یورپ کی اب تک کی سب سے ’خون ریز‘ جنگ کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔
روس نواز علیحدگی پسندوں کے سربراہ ڈینس پشلین نے بدھ کو مقامی نیوز ایجنسی ڈی این اے کو بتایا کہ یوکرین کے ٹاپ کمانڈر جنہوں نے سٹیل فیکٹری کے اندر سے زبردست مزاحمت کی وہ ابھی تک اس کے اندر ہی ہیں۔
یوکرین کے حکام فوجیوں کے اقدام کے حوالے سے تبصرے سے گریز کر رہے ہیں۔
فوج کے ترجمان اولیکسینڈر موتوزینک نے نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ’ریاست پوری کوشش کر رہی ہے کہ اپنے اہلکاروں کو بچایا جائے، تاہم عوامی سطح پر مزید معلومات نہیں دی جا سکتیں کیونکہ اس سے وہ عمل خطرے میں پڑنے کا امکان ہے۔‘
یوکرین کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ منگل کو 250 سے زائد فوجیوں نے ہتھیار ڈالے تاہم یہ نہیں بتایا کہ ابھی مزید کتنے فوجی اندر ہیں۔

ماسکو نے ویڈیوز جاری کی ہیں جس میں سرنڈر کے بعد فوجیوں کو طبی امداد لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (فوتو: روئٹرز)

روس نے بدھ کو بتایا کہ مزید 694 فوجیوں نے ہتھیار ڈالے ہیں، جس کے بعد کُل تعداد 959 ہو گئی ہے۔
روس کی وزارت دفاع نے ایسی ویڈیوز بھی جاری کی ہیں جن میں سرنڈر کرنے کے بعد یوکرینی فوجیوں کو ہسپتال میں طبی امداد لیتے دکھایا گیا ہے۔
ماریوپول کے میئر بوئیچونکوف کا کہنا ہے کہ یوکرین صدر ولادیمیر زیلنسکی، ریڈ کراس اور اقوام  متحدہ مذاکرات میں شامل تھے، تاہم انہوں نے مزید کوئی معلومات نہیں دیں۔
ماریوپول اب تک کا سب سے بڑا شہر ہے جس پر روس نے قبضہ کیا ہے اور 24 فروری سے شروع ہونے والی جنگ کے بعد اسی شہر پر قبضے کی وجہ سے صدر پوتن نے جزوی فتح کا دعوٰی کیا تھا۔

یوکرین کے شہر ماریوپول پر ابھی تک روس کا قبضہ برقرار ہے (فوٹو: روئٹرز)

ماسکو نے کیئف سے پیچھے ہٹتے ہوئے اب اپنی توجہ جنوب مشرقی علاقوں پر مرکوز کر لی ہے جس کے بعد کیئف میں حالات معمول کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بدھ کو امریکہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس نے وہاں اپنی ایمبیسی کو فعال کر دیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ ’روس کے ناجائز حملے کے جواب میں یوکرین کے عوام اپنی سرزمین کا دفاع کر رہے ہیں اور اسی کی بدولت ہی ایک بار پھر ہماری ایمبیسی فعال ہو رہی ہے۔‘
امریکی ایمبیسی کے ترجمان ڈینیئل لینجن کیمپ  نے بتایا کہ ’ابتدائی طور پر بہت کم تعداد میں سفارت کار واپس پہنچیں گے تاہم قونصلر کے معاملات فوری طور پر بحال نہیں کیے جائیں گے۔‘

شیئر: