سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو کشمیر ہائی وے سے ملحق گراؤنڈ میں احتجاج کی اجازت دے دی ہے۔
عدالت نے حکومت کو تحریک انصاف کو احتجاج کے لیے سکیورٹی دینے کی بھی ہدایت کی ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو رکاوٹیں ہٹانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
سپریم کورٹ نے تمام گرفتار رہنماؤں، کارکنان اور وکلاء کو فوری رہا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
-
لانگ مارچ حکومت نہیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے: مریم نواز
Node ID: 671386
-
لانگ مارچ اور جلسے، کیا سابق حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کی تھیں؟
Node ID: 671451
عدالت نے تین گھنٹے کے اندر پی ٹی آئی کے جلسے کے لیے ایچ نائن جلسہ گاہ میں سکیورٹی انتظامات مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔
عدالت نے کہا کہ کسی بھی وقت عدالتی حکم میں رد و بدل کیا جاسکتا ہے اور حکم واپس بھی لیا جاسکتا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی قیادت کو گرفتار نہیں کیا جائے گا، گرفتار کی گئی سیاسی قیادت اور ورکرز کو فوری رہا کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ آج کے جلسے کے لیے پی ٹی آئی حکومت میں جے یوآئی کے جلسے کے لیے کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد کیا جائے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ نے ملک کی سیاسی صورتحال اور راستوں سے بندش سے ہٹانے کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سے کہا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کی جانب سے راستوں کو کھولنے، سری نگر ہائی وے پر احتجاج کی اجازت دینے اور بغیر ایف آئی آر پکڑے گئے کارکنان کی رہائی بارے میں حکومت سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔
سپریم کورٹ میں لانگ مارچ کے دوران راستوں کی بندش اور گرفتاریوں سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
دوسرے وفقے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے عدالت سے کہا کہ میں نے عمران خان سے ہدایات لی ہیں اور انھوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم عدالت کے احکامات پر عمل درآمد کریں گے اور پر امن احتجاج کریں گے جس سے عام شہریوں کی زندگی متاثرنہیں ہوگی۔
انھوں نے عدالت سے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ عدالت حکومت کو سری نگر ہائی وے پر دھرنا دینے، بغیر ایف آئی آر گرفتار کیے گئے کارکنان کو رہا کرنے اور راستوں سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دے۔ عمران خان نے بابر اعوان، عامر کیانی، علی نواز اعوان اور فیصل چوہدری پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو حکومت سے بات چیت کرے گی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ بابر اعوان کے نکات پر وزیر اعظم سے ہدایات لے کر بتائیں۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی ٹی آئی سے پوچھا جائے کہ وہ اپنا احتجاج ختم کرے گی؟ اس پر بابر اعوان نے کہا کہ ہمارا اعلان ہے کہ نئے انتخابات کے اعلان تک دھرنا دیں گے جس پر عدالت نے کہا کہ آپ بھی ہدایات لے کر آئیں ہم اپنے حکم نامے میں ٹائم فریم کے حوالے سے دیکھیں گے۔
عدالت نے سماعت میں وفقہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک گھنٹے بعد دوبارہ سماعت کریں گے۔
اس سے قبل سماعت کے آغاز پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، سکولز اور ٹرانسپورٹ بند ہے، معاشی لحاظ سے ملک نازک دوراہے اور دیوالیہ ہونے کے در پر ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا؟ تمام امتحانات ملتوی، سڑکیں اور کاروبار بند کر دیے گئے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں تفصیلات کا علم نہیں، معلومات لینے کا وقت دیں۔
مظاہر نقوی نے اٹارنی جنرل سے استعفسار کیا کہ کیا انہیں ملکی حالات کا علم نہیں؟
جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستے بند ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سکولز کی بندش کے حوالے سے شاید آپ میڈیا رپورٹس کا حوالہ دے رہے ہیں، میڈیا کی ہر رپورٹ درست نہیں ہوتی۔
جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ سکولز کی بندش اور امتحانات ملتوی ہونے کے سرکاری نوٹیفکیشن جاری ہوئے ہیں۔
عدالت نے ابتدائی طور پر سیکرٹری داخلہ، کشمنر، آئی جی، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو طلب کرلیا۔ عدالت نے چاروں صوبوں کو نوٹس دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کیا۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے۔
جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ خونی مارچ کی دھمکی دی گئی ہے، بنیادی طور پر راستوں کی بندش کے خلاف ہوں، عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں، راستوں کی بندش کو سیاق و سباق کے مطابق دیکھا جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں بھی احتجاج کے لیے جگہ مختص کی گئی تھی۔
میڈیا کے مطابق تحریک انصاف نے احتجاج کی اجازت کے لیے درخواست دی تھی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتظامیہ سے معلوم کرتا ہوں کہ درخواست پر کیا فیصلہ ہوا۔
