Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زیرِزمین ذخیرہ، ایران نے ڈرون دکھا دیے مگر مقام چُھپا لیا

فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سرنگوں میں ڈرونز کی لمبی قطاریں کھڑی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
ایران کی فوج کی جانب سے زمین دوز ڈرون بیس کی کچھ تفصیلات دی گئی ہیں تاہم یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں واقع ہے۔
خبررساں ادارے روئٹرز نے ایران کے سرکاری میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب خلیج میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
ایران کے سرکاری ٹی وی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’100 ڈرونز زرگوز کے پہاڑوں میں رکھے گئے ہیں، جن میں ابابیل 5 بھی شامل ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہوا سے زمین پر مار کرنے والے امریکی ہیلی کاپٹر ہیلفائر کا ایرانی ورژن ہے۔‘
ایرانی کمانڈر میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے کہا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے ڈرونز خطے کے طاقت ور ترین ڈرونز ہیں۔ ان کو مزید بہتر بنانے کی ہماری صلاحیتوں کو روکا نہیں جا سکتا۔‘  
ایران کے سرکاری ٹی وی کے نمائندے کا کہنا تھا کہ انہوں نے جمعرات کو کرمنشا سے مغربی ایران کی طرف ہیلی کاپٹر میں 45 منٹ کا سفر کیا اور اس خفیہ زمین دوز ڈرون سائٹ تک پہنچے۔
نمائندے کے مطابق ’میری آنکھوں پر پٹی باندھی گئی جو وہاں پہچنے کے بعد اتاری گئی۔‘
ٹی وی کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سرنگوں میں ڈرونز کی لمبی قطاریں کھڑی ہیں، جن پر میزائل بھی نصب ہیں۔
اس مقام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کئی سو میٹر زمین کے نیچے ہے۔

27 مئی کو امریکہ نے یونانی ساحل کے قریب ایک ٹینکر سے ایرانی تیل ضبط کیا تھا (فوٹو: روئٹرز)

یہ ٹی وی رپورٹ ایرانی پاسداران انقلاب کی جانب سے خلیج میں دو یونانی ٹینکر قبضے میں لیے جانے کے ایک روز بعد آئی ہے جو کہ بظاہر اس واقعے کی انتقامی کارروائی ہے جس میں یونانی ساحل کے قریب امریکہ نے ایک ٹینکر سے ایرانی تیل ضبط کیا تھا۔
یونانی حکام نے پچھلے ماہ یورپی یونین کی پابندیوں کے باعث ایرانی جھنڈے والے جہاز کو روک لیا تھا جس میں عملے کے 19 روسی ارکان سوار تھے۔
بعدازاں امریکہ نے جہاز پر موجود ایرانی تیل کو ضبط کر کے دوسرے جہاز پر امریکہ بھجوانے کا منصوبہ بنایا، جس کے بعد جہاز کو چھوڑ دیا گیا تاہم اس واقعے سے کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
یہ واقعے ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب ایران اور عالمی طاقتیں اس جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں جس کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ختم کر دیا تھا اور تہران پر دوبارہ پابندیاں لگا دی تھیں۔

شیئر: