بلوچستان بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدواروں کو برتری
بلوچستان بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدواروں کو برتری
اتوار 29 مئی 2022 17:08
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
بلوچستان کے 32 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ملے جلے نتائج سامنے آرہے ہیں۔
ابتدائی نتائج میں مجموعی طور پر آزاد امیدواروں کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے۔ کئی اضلاع میں مذہبی اور بلوچ پشتون قوم پرست جماعتوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ گوادر میں حق دو تحریک کے غیر معروف امیدواروں نے چار جماعتی اتحاد کے مضبوط امیدواروں کو اپ سیٹ شکست دے دی۔
غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق شہری علاقوں کے زیادہ تر نتائج موصول ہوگئے ہیں جبکہ بیشتر دیہی اور دور دراز علاقوں کے نتائج اب تک موصول نہیں ہوسکے ہیں۔ دکی، نوشکی، چاغی، بارکھان، سبی، کچھی میں آزاد امیدواروں نے انتخابی میدان مارا ہے۔
حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے لورالائی، ڈیرہ مراد جمالی اور جعفرآباد میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی کی 34 میں سے 30، جعفرآباد کی 21 میں 16نشستوں پر کامیاب امیداروں کا تعلق باپ پارٹی سے تھا۔
صوبے کے شمالی اور پشتون اکثریتی اضلاع میں محمود خان اچکزئی کی قوم پرست جماعت پشتونخواملی عوامی پارٹی اور مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علماء اسلام میں کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ پشین، چمن، ہرنائی، قلعہ سیف اللہ، مسلم باغ کے شہری علاقوں کی میونسپل کمیٹیوں کی نشستوں پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کامیاب ہوئی ہے۔
انہیں چمن کی 35 میں سے13 نشستوں، قلعہ سیف اللہ کی 15 میں سے11، ہرنائی کی چھ میں سے چار، مسلم باغ کی 13 میں سے نو، پشین کی 34 میں سے19 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ جبکہ سرانان، خانوزئی، موسیٰ خیل اور قلعہ عبداللہ میں جمعیت علماء اسلام کا پلڑا بھاری ہے۔
صوبے کے جنوبی اور مغربی بلوچ اکثریتی اضلاع میں سیاسی جماعتوں کی نسبت آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے والوں کو زیادہ کامیابی ملی ہے۔
گوادر کے نتائج سب سے حیران کن رہے جہاں مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں گوادر کو حق دو تحریک کے غیر معروف امیدواروں نے بلوچستان نیشنل پارٹی، جمعیت علماء سلام اور نیشنل پارٹی سمیت چار جماعتی اتحاد کے امیدواروں کو بڑے مارجن سے شکست دی ہے۔ ہارنے والے امیدواروں میں سابق تحصیل ناظم بھی ہے۔
گوادر کے شہری علاقے میں میونسپل کمیٹی کی42 میں سے27حق دو تحریک، اسی طرح سربندن اور پشکان کی نشستوں پر بھی حق دو تحریک کے امیدواروں کو بھاری اکثریت ملی ہے۔
بارکھان میں حکمران جماعت بی اے پی کے کے وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے حمایت یافتہ آزاد گروپ، سبی میں بی اے پی کے رکن صوبائی اسمبلی سرفراز چاکر ڈومکی کے حامی آزاد ڈومکی گروپ، کچھی کے علاقے ڈھاڈر میں پی ٹی آئی کے ناراض رہنما سردار یار محمد رند کے حامی سردار رند گروپ، مچھ میں سابق صوبائی وزیر عاصم کرد گیلو کے آزاد گروپ نے اکثریت حاصل کی ہے۔
دالبندین میں سابق صوبائی وزیر امان اللہ نوتیزئی کے حامی آزاد گروپ بابائے چاغی پینل، چاغی میں بی اے پی کے رکن صوبائی اسمبلی عارف حسنی کے الفتح پینل، تفتان اور نوکنڈی میں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے حمایتی آزاد سنجرانی گروپ، کوہلو کے شہری علاقوں میں پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر نصیب اللہ گروپ، ڈیرہ بگٹی کے میونسپل کمیٹی میں شاہ زین بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی، قلات میں پیپلز پارٹی، خضدار تحصیل زہری میں نواب ثناء اللہ زہری کی حمایت سے پیپلز پارٹی، تحصیل وڈھ میں سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی کو کامیابی ملی ہے۔
ضلع مستونگ اور واشک میں جمعیت علماء اسلام اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ ضلع کیچ میں تربت میونسپل کارپوریشن کی52 میں سے 33 نشستوں پر نیشنل پارٹی اور خضدار میں میونسپل کارپوریشن کی41 میں سے سب سے زیادہ11 نشستوں پر نیشنل پارٹی نے کامیابی حاصل کی ہے۔ بلیدہ میں سابق صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی کا حامی آزاد گروپ جبکہ پنجگور اور تمپ میں بی این پی عوامی کا پلڑا بھاری رہا۔
قبل ازیں پولنگ کے دوران سیاسی مخالفین کے درمیان لڑائی جھگڑوں کے دوران ایک شخص ہلاک اور سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
کالعدم مسلح تنظیموں کی جانب سے قلات، خضدار، کیچ ، نوشکی اور کوہلو میں پولنگ سٹیشنز پر راکٹ داغے گئے اور دستی بم حملے کیے گئے جن میں لیویز اہلکار سمیت دو افراد زخمی ہوئے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق بلوچستان کے کل 34 میں سے 32 اضلاع میں سات میونسپل کارپوریشنز، 838 یونین کونسلز اور 4456 وارڈز کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔
پولنگ کا عمل صبح آٹھ بجے شروع ہوا جو شام پانچ بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہا۔ کوئٹہ اور لسبیلہ میں حلقہ بندیوں کا کام مکمل نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات دوسرے مرحلے میں ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق 1584 وارڈ پر امیدوار پہلے ہی بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ 102 میں عدالتی احکامات پر انتخابات ملتوی کیے گئے جبکہ باقی 4456 وارڈز میں 16 ہزار سے زائد امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔
کل رائے دہندگان کی تعداد 35 لاکھ 52 ہزار تھی جن میں سے 15 لاکھ خواتین ووٹرز بھی شامل ہیں۔ مقامی حکام کے مطابق بیشتر علاقوں میں ٹرن آؤٹ اچھا رہا اور پولنگ سٹیشنز کے باہر لمبی قطاریں دیکھی گئیں۔
گوادر، کوہلو، دکی، نوشکی، جھل مگسی، نصیرآباد، سبی، جعفرآباد سمیت کئی اضلاع میں خواتین بھی بڑی تعداد میں نکلیں۔
تاہم بعض علاقوں میں لڑائی جھگڑوں، امن وامان کی صورتحال اور شدید گرمی کی وجہ سے ٹرن آؤٹ متاثر ہوا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق مجموعی طور پر 5 ہزار226 پولنگ سٹیشن اور 12 ہزار 219 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے جہاں29 ہزارپولنگ عملہ تعینات تھا۔
دو ہزار 34 پولنگ اسٹیشنز کو انتہائی حساس اور ایک ہزار 974 پولنگ اسٹیشن کو حساس قرار دیا گیا تھا۔ انتہائی حساس پولنگ سٹیشنز پر پولیس اور لیویز کے علاوہ پاک فوج اور ایف سی کو بھی تعینات کیا گیا تھا۔
صوبے کے کئی اضلاع میں انتخابی عمل کے دوران پرتشدد واقعات بھی ہوئے ۔ چاغی کے علاقے پدگ میں پولنگ سٹیشن کے باہر دو گروہوں میں تصادم کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہوا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ محمد ہاشم غلزئی نے بتایا کہ چاغی میں ایک شخص ہلاک ہوا ہے جبکہ نصیرآباد، قلعہ عبداللہ، چمن، کوہلو سمیت کئی اضلاع میں لڑائی جھگڑے ہوئے ہیں جس میں ڈنڈوں اور مکوں کا استعمال کیا گیا۔
الیکشن کمیشن بلوچستان کے ایک عہدے دار کے مطابق قلعہ عبداللہ میں مسلح افراد نے پولنگ عملے سے بیلٹ پیپرز اور پولنگ کا سامان چھین لیا جس پر وہاں انتخابات روک دیے گئے۔ پشین میں جعلی شناختی کارڈ پر ووٹ کاسٹ کرنے کی کوشش ناکام بنائی گئی۔
پولیس اور لیویز کی رپورٹس کے مطابق قلعہ عبداللہ، چمن، سبی، ڈیرہ مراد جمالی ، کوہلو ، آواران، دکی سمیت بلوچستان کے کئی اضلاع میں پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر مخالفین کے درمیان دھاندلی کے الزامات پر تصادم کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں لاٹھیوں اور ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا اور ہوائی فائرنگ بھی ہوئی ۔ ان جھگڑوں میں کم از کم سو افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان ہاشم غلزئی کے مطابق لڑائی جھگڑوں کے چھوٹے موٹے واقعات کے باوجود مجموعی طور پر صورتحال پرامن رہی اور لوگوں نے آزادانہ طریقے سے رائے دہی کا حق استعمال کیا۔
محمد ہاشم غلزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ بتایا کہ بعض علاقوں میں کالعدم تنظیموں نے پولنگ عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کی تاہم وہ ناکام رہے اور لوگ اس کے باوجود ووٹ کاسٹ کرنے نکلے۔
انہوں نے بتایا کہ قلات کے علاقے منگچر میں پولنگ سٹیشن کے قریب بم دھماکے میں لیویز اہلکار اور ایک عام شہری زخمی ہوا ۔ نوشکی کے کلی سردار مینگل میں خواتین کے پولنگ سٹیشن پر دستی بم حملہ کیا گیا جبکہ کوہلو کے علاقے بریلی میں پولنگ سٹیشن اور لیویز چوکی پر تین راکٹ داغے گئے جو قریب گر کر دھماکے سے پھٹ گئے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
مقامی لیویز کے مطابق خضدار، تربت اور کوہلو میں بھی پولنگ کے دن اور اس سے ایک روز قبل پولنگ سٹیشنز پر دستی بم حملے کیے گئے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ کے مطابق مجموعی طور پر 30 ہزار سے سیکورٹی اہلکار تعینات کیے گئے تھے جن میں پاک فوج اور ایف سی کے 8 ہزار اہلکار بھی شامل تھے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق 32 اضلاع کو مجموعی طور پر 6ہزار 259 شہری اور دیہی وارڈز میں تقسیم کیا گیا جہاں جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے۔ اس کے بعد خواتین کےلئے مختص 35 فیصد، مزدور، کسان اور اقلیت کے لئے مختص پانچ پانچ فیصد نشستیں کامیابی کے تناسب سے پارٹیوں میں تقسیم کی جائیں گی۔
الیکشن کمیشن کے مطابق دیہی وارڈز میں براہ راست ووٹ لیکر منتخب ہونے والے کونسلر یونین کونسل چیئرمین، نائب چیئرمین کا انتخاب کریں گے پھر وہ اضلاع کے ڈسٹرکٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب کریں گے۔ جبکہ شہری وارڈز سے منتخب ہونے والے امیدوار میونسپل کمیٹیوں اور کارپوریشن کے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب کریں گے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات میں 132 خواتین بھی جنرل نشستوں پر حصہ لے رہی ہیں۔ سب سے زیادہ 22 خواتین کوہلو، 21 کیچ ، 13 جعفرآباد، اور 9 خواتین سبی سے انتخابی میدان میں مردوں کے مقابلے میں اتری ہیں۔