Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

بی اے پی کے رکن اسمبلی میر ظہور احمد بلیدی نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تو صرف 11 اراکین نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر اس کی حمایت کی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔ سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان ، سردار یار محمد رند اور ان کے ہم خیال اراکین کو صوبائی اسمبلی میں مطلوبہ تعداد میں اراکین کی حمایت نہ ملنے کے باعث شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف گزشتہ ہفتے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کو آج بلوچستان اسمبلی کے اجلاس  میں پیش کیا گیا۔ قانون کے مطابق تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے کل 65 اراکین کا 20 فیصد یعنی 13 اراکین کی حمایت ضروری ہے۔ تحریک پیش ہونے کے بعد اس پر تین سے سات دن کے اندر ووٹنگ ہونا تھی جس کے لئے 33 ارکان کی حمایت درکار تھی۔
تاہم تحریک عدم اعتماد ابتدائی مرحلے میں ہی ناکام ہوئی جب اجلاس میں بی اے پی کے رکن اسمبلی میر ظہور احمد بلیدی نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تو صرف 11 اراکین نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر اس کی حمایت کی۔
قائمقام سپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے تحریک کو مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہونے پر مسترد کردیا۔ اس طرح عبدالقدوس بزنجو کی کرسی کو لاحق خطرہ ٹل گیا۔
اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند اور بی این پی عوامی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر زراعت اسد اللہ بلوچ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
تحریک عدم اعتماد پر کل 14 اراکین کے دستخط تھے جن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ جام کمال خان سمیت ان کی جماعت کے 24 میں سے صرف 7 اراکین شامل تھے۔
پی ٹی آئی کے سات میں سے  چار اور اے این پی کے چار میں سے تین نے بھی تحریک عدم اعتماد پر دستخط کیے تھے تاہم بی اے پی کے نوابزادہ طارق مگسی، اے ین پی کے ملک نعیم بازئی اور پی ٹی آئی کے  مبین خلجی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
پی ٹی آئی کے مبین خلجی نے ایک دن قبل عبدالقدوس بزنجو سے ملاقات کرکے واپس ان کے کیمپ میں شامل ہوگئے اور تحریک عدم اعتماد کی حمایت سے دستبردار ہوگئے تھے جبکہ بی اے پی کے نوابزادہ طارق مگسی اور اے این پی کے ملک نعیم بازئی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
تحریک عدم اعتماد کی حمایت اور مخالفت پر  بی اے پی کے سربراہ جام کمال خان اور پارٹی کے پارلیمانی لیڈر عبدالقدوس بزنجو نے ایک دوسرے کو آئین کی شق 63 کے تحت شوکاز نوٹسز بھی جاری کیے۔ جام کمال خان کا کہنا ہے کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

جام کمال خان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں سے پوچھیں گے کہ وہ کیوں خاموش رہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں جام کمال خان کا کہنا تھا کہ ہمیں پتہ تھا کہ ہمیں اراکین کی مطلوبہ حمایت حاصل نہیں، ہم کرپٹ، کمیشن خور اور نوکریاں بیچنے والی حکومت کے خلاف کھڑے ہوئے ،ہمارے ساتھ کھڑے ہونے والوں پر دباؤ ڈالا گیا اور ان کے خلاف پوری حکومتی مشینری استعمال کی گئی۔
بی اے پی کے میر ظہور بلیدی نے الزام لگایا کہ اس حکومت کو بنانے میں چند ٹھیکیداروں کا ہاتھ ہے اوریہ بات 65 کے ایوان میں ہر شخص کو پتہ ہے۔ ’جس شخص نے اس حکومت کو لانے میں سرمایہ کاری کی اس کا مقصد بلوچستان کے عوام کا مفاد نہیں تھا میں اس گناہ میں شامل تھا لیکن جیسے ہی مجھ پر یہ بات آشکار ہوئی تو میں نے کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔‘
عبدالقدوس بزنجو کے حامی صوبائی وزیراسد بلوچ کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں نے بجٹ سے قبل حکومت کو ڈسٹرب کرنے کی کوشش کی لیکن ارکان اسمبلی کی اکثریت کا وزیراعلیٰ پر اعتماد تھا اس لیے انہوں نے ان کا ساتھ دیا۔ موجودہ حکومت اپنی مدد پوری کرے گی اور عوام کے مسائل کو حل کرے گی۔
خیال رہے کہ  جام کمال کے خلاف گزشتہ سال  اکتوبر میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی جس کے نتیجے میں انہیں مستعفی ہونا پڑا۔ اس کے بعد بی اے پی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور پارٹی کے صوبائی اسمبلی میں 24 اراکین میں سے سات جام کمال کے   کیمپ کا حصہ بنے جبکہ باقی 16 اراکین عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ  ہیں۔
جام کمال خان نے اس سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ پی ڈی ایم نے انہیں وفاق میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے وقت بلوچستان حکومت کا تختہ الٹنے میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے تاہم  پی ڈی ایم میں شامل  جماعتوں جمعیت علماء اسلام ،بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے جام کمال اور ان کے ہم خیال گروپ کا ساتھ نہیں دیا۔
تینوں جماعتوں کے بلوچستان اسمبلی میں اراکین کی تعداد 23 ہیں جن کی حمایت ملنے پر تحریک عدم اعتماد آسانی سے کامیاب ہوسکتی تھی۔
اس بابت جام کمال خان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں سے پوچھیں گے کہ وہ کیوں خاموش رہیں اور ساتھیوں اور اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔

صوبائی اسمبلی میں باپ پارٹی کے 24 اراکین میں سے 16 عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ  ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

تجزیہ کار جلال نورزئی کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کی تبدیلی کے لیے کوئی تیاری نہیں تھی۔ ’نہ ان کی جانب سے اراکین اسمبلی اور پارٹیوں کے قائدین سے مؤثررابطے تھے۔ انہیں ابتدا سے ہی پی ڈی ایم  میں شامل جمعیت علماء اسلام، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سےغیر سنجیدگی کا سامنا تھا۔
جلال نورزئی کا کہنا تھا کہ جام کمال بی اے پی کے سربراہ ہیں انہیں حکومت سازی کے وقت ایم کیو ایم کی طرح تحریری معاہدہ کرنا چاہیے تھا کیونکہ وفاق میں ان کے چار اراکین قومی اسمبلی کو پی ڈی ایم کو وفاقی حکومت برقرار رکھنے کے لیے بہت ضرورت تب بھی تھی اور آج بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر جام کمال کا یہ کہنا درست ہے کہ پی ڈی ایم اے نے انہیں حکومتی تبدیلی لانے میں مدد کی یقین دہانی کرائی تھی کہ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے انہیں دھوکہ دیا۔
جلال نورزئی کے مطابق بی این پی کو عدم اعتماد سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں تھا کیونکہ عبدالقدوس بزنجو حکومت نے اپوزیشن میں ہونے کے باوجود بھی ان کی تمام مطالبات پورے کیے ہیں اور انہیں فنڈز سمیت دیگر مراعات بھی دے رہے ہیں۔ ایسی صورت میں بی این پی کیوں جام کمال کا ساتھ دیتی۔

شیئر: