گوادر میں ماہی گیر اِن دنوں مالا مال کیوں ہو رہے ہیں؟
گوادر میں ماہی گیر اِن دنوں مالا مال کیوں ہو رہے ہیں؟
پیر 31 مئی 2021 15:05
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
48 کلو وزنی مچھلی کی بولی 30 ہزار روپے فی کلو سے شروع ہوئی۔ فوٹو: اردو نیوز
ایرانی سرحد سے متصل بلوچستان کے ساحلی شہر جیونی سے ایک ہفتے کے دوران ماہی گیروں کو دو ایسی مچھلیاں ملی ہیں جو 80 لاکھ روپے سے زائد میں فروخت ہوئیں۔
کروکر نامی ان دو مچھلیوں کا وزن 48 کلو اور 26 کلو تھا جسے ناخدا عبدالوحید اور ماہی گیر عبدالحق نے پکڑا تھا۔ مچھلیوں کو فروخت کے لیے جیونی کی مقامی مچھلی مارکیٹ میں لایا گیا۔
گوادر کے علاقے جیونی میں تعینات محکمہ ماہی گیری کے انسپکٹر عبدالخالق نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ 48 کلو وزنی مچھلی کی بولی 30 ہزار روپے فی کلو سے شروع ہوئی۔ آخری بولی ثناء اللہ نامی مقامی تاجر نے ایک لاکھ 80 ہزار روپے فی کلو کے حساب سے 86 لاکھ روپے کی لگائی۔ تاہم مارکیٹ کی روایت کے مطابق آخری بولی کے بعد خریدنے والے تاجر کو 14 لاکھ روپے کی رعایت دی گئی اس طرح کشتی کے مالک اور ناخدا کو صرف 48 کلو وزنی مچھلی کے بدلے 72 لاکھ روپے ملے۔
خیال رہے کہ دو روز قبل عبدالحق نامی ماہی گیر کے ہاتھ 26 کلو وزنی کروکر مچھلی لگی تھی جسے سات لاکھ 80 ہزار روپے میں فروخت کیا گیا۔ فشریز انسپکٹر عبدالخالق کے مطابق مچھلی کی قیمت کا بڑا حصہ کشتی کے مالک اور ناخدا کو ملتا ہے اور کچھ حصہ باقی ماہی گیروں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ کشتی میں عموماً آٹھ سے 10 ماہی گیر ہوتے ہیں۔
ناخدا عبدالوحید نے بیش قیمت مچھلی ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ جس مچھلی کی تلاش سب کو ہوتی ہے وہ انہیں ملی۔ یہ ایسا ہے جیسے کئی مہینوں اور سالوں کی کمائی ایک ساتھ ایک دن میں مل جائے۔
مچھلی کی اتنی زیادہ قیمت کی وجہ کیا؟
کروکر مچھلی کو مقامی بلوچی زبان میں 'کر' اور اردو میں 'سوا' کہتے ہیں۔
جیونی میں ماہی گیروں کے اتحاد کے جنرل سیکریٹری الٰہی بخش نے بتایا کہ مقامی ماہی گیروں کو پتہ نہیں کہ اس سے کیا بنتا ہے اس کے خریدار زیادہ تر کراچی میں بیٹھے تاجر یا ان کے یہاں موجود ایجنٹ ہیں مگر اس کے استعمال سے متعلق کئی باتیں کی جاتی ہیں۔
محکمہ ماہی گیری گوادر کے ڈپٹی ڈائریکٹر احمد ندیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس مچھلی کے گوشت کی قیمت بھی عام مچھلیوں کی طرح دو سو روپے سے تین سو روپے فی کلو ہے۔ اصل قیمت کروکر کے اندر پائے جانے والے سفید رنگ کے ایئر بلیڈر کی ہے جسے بلوچی زبان میں پھوٹو کہتے ہیں۔ اس ایئر بلیڈر کی چین، سنگا پور، ہانگ کانگ اور کئی یورپی ممالک میں بڑی مانگ ہے۔
احمد ندیم کے مطابق ایئر بلیڈر کا استعمال ادویات، خوراک اور سرجری میں استعمال ہونے والے دھاگوں میں ہوتا ہے۔ اسے جسمانی اور جنسی قوت بڑھانے اور ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس بلیڈر سے بننے والے دھاگے کو آپریشن کے بعد نکالنا نہیں پڑتا اور وہ انسانی جسم میں جذب ہوجاتا ہے۔
تاہم آبی حیات کے ماہر اور ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر معظم علی خان کا کہنا ہے کہ مچھلی کے بلیڈر کو چین، سنگا پور اور ہانگ کانگ وغیرہ میں خاص قسم کے سوپ میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ دو مرتبہ یہ سوپ پی چکے ہیں مگر اس میں ایسی کوئی خاص بات نہیں لگی۔ ’ہمارے ہاں عام شخص اسے شاید پینا بھی پسند نہ کریں مگر جسمانی طاقت بڑھانے کے لیے استعمال ہونے والا یہ پرتعیش کھانا چین کے امراء کے لیے سٹیٹس سیمبل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ مہنگے ہوٹلوں میں کروکر مچھلی کے سوپ کے لیے بڑی سے بڑی قیمت بھی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔‘
احمد ندیم کے مطابق مقامی تاجر مچھلی کو برف لگا کر محفوظ کرکے کراچی لے جاتے ہیں جہاں ماہر افراد مچھلی کا پیٹ چیر کر ایئر بلیڈر نکالتے ہیں اور پھر بڑے تاجر انہیں بیرون ملک برآمد کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مچھلی کی قیمت کا تعین ایئر بلیڈر کے حجم سے کیا جاتا ہے۔ جتنا ایئر بلیڈر بڑا ہوگا اتنی اس کی قیمت زیادہ ہوگی۔ نر مچھلی میں ایئر بلیڈر بڑا اور وزنی ہوتا ہے اس لیے اس کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے جبکہ مادہ مچھلی کا بلیڈر چھوٹا ہوتا ہے اس لیے اس کی قیمت کئی گنا کم ہوتی ہے۔
ماہر آبی حیات معظم علی کا کہنا تھا کہ ایک زمانے میں سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں پر اس مچھلی کی بہتات تھیں اور کبھی کبھی ایک ہی ماہی گیر 15 سے 20 کروکر مچھلیاں بھی پکڑ لیتا تھا اس زمانے میں اس کی قیمت بھی کچھ زیادہ نہیں تھی۔
پہلے اسے پاؤڈر بناکر شراب کے رنگ کو بہتر بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا مگر 2005ء کے بعد چین میں معاشی حالات بہتر ہونے کے بعد کروکر مچھلی کی برآمدات میں اضافہ ہوگیا جس سے اس کی قیمت بھی بڑھ گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ چین میں ایک مرتبہ کروکر مچھلی ڈیڑھ لاکھ ڈالر میں بھی فروخت ہوئی۔
ان کے بقول چین اور دیگر ممالک میں مانگ میں اضافے کی وجہ سے کروکر مچھلی کا شکار بھی بڑھ گیا جس کی وجہ سے ان کی تعداد اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
معظم علی خان کے مطابق ایرانی پانیوں میں پائی جانے والی یہ مچھلی مئی اور جون میں ہجرت کر کے پاکستانی اور انڈین ساحلوں کا رخ کرتی ہے اس لیے انہی دو مہینوں کے دوران ان کا شکار زیادہ ہوتا ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر فشریز احمد ندیم نے بتایا کہ کروکر مچھلیاں سارڈین نامی چھوٹی مچھلیوں کو کھانے کے لیے بھی پاکستانی علاقوں میں آتی ہیں۔ یہ عموماً 10 مئی سے 20 جون تک ہمارے ہاں آتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے بھی ماہی گیر ہیں جو پورا سال صرف اس سیزن میں شکار کرتے ہیں۔ ان کا ہدف کروکر مچھلی پکڑنا ہوتا ہے اگر ان کے ہاتھ ایک بھی مچھلی آجائے تو ایک ہی دن میں باقی ماہی گیروں کے مقابلے میں پورے سال جتنا کما لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہی گیر جال بچھا کر کئی کئی دنوں تک صرف اسی مچھلی کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔
فشریز انسپکٹر عبدالحق نے بتایا کہ کروکر مچھلی کو پکڑنے کے لیے کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں سے ٹرالر بھی آتے ہیں اور متعین کردہ 12 ناٹیکل میل کی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ساحل کے قریبی علاقوں میں بھی گھستے ہیں۔ ان کی جانب سے بڑے جال کے استعمال کی وجہ سے کروکر مچھلی سمیت کئی دیگر مچھلیوں کی نسل کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
جیونی میں ماہی گیروں کے اتحاد کے جنرل سیکریٹری الہیٰ بخش نے بتایا کہ جب سے کروکر مچھلی کی مہنگے داموں فروخت کی خبر سامنے آئی ہے تب سے کراچی اور سندھ سے بڑی تعداد میں غیر قانونی ٹرالر جیونی کا رخ کر رہے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ غیر قانونی ٹرالرز متعلقہ حکام کو رشوت دے کر 12 ناٹیکل میل کی حدود کے اندر بھی آ جاتے ہیں جہاں ان پر پابندی ہیں۔ ان کے پاس ایسے ممنوعہ جال ہوتے ہیں جو چھوٹی سے چھوٹی مچھلیوں کو بھی پکڑ لیتے ہیں اس لیے مچھلیوں کی نسل کشی ہورہی ہے۔