پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی گفٹ سکیم کے تحت امپورٹ کی جانے والی پرانی گاڑیوں کو پابندی سے استثنیٰ دیا جائے۔
پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کی جانب سے اس مطالبے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ان گاڑیوں کی وجہ سے پاکستان سے پیسہ باہر نہیں جاتا بلکہ ڈیوٹیز کی مد میں لاکھوں ڈالر پاکستان آتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان میں گاڑیوں کی قیمت بلند ترین سطح پر کیوں؟Node ID: 522171
-
پاکستان میں گاڑیوں کی قیمت کم نہ ہونے کے عوامل کیا ہیں؟Node ID: 565676
آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کے نام لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ’19 مئی 2022 کو جاری کیے جانے والے ایس آر او میں کچھ بنیادی خامیاں ہیں جن پر نہ صرف استعمال شدہ کاروں کا کاروبار کرنے والوں بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی تشویش ہے اس لیے ترمیم ضروری ہے۔‘
خط کے متن کے مطابق ’بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے گفٹ سکیم کے تحت پاکستان بھیجی جانے والی گاڑیوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔‘
یاد رہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک کی معاشی صورت حال کے پیش نظر بیرون ملک سے گاڑیوں سمیت پُرتعیش اشیا کی درآمد پر پابند عائد کر رکھی ہے۔
پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ اس سکیم کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستان اپنے متعلقہ ملک سے اپنے اکاؤنٹ سے وہیں پر کمائی ہوئی رقم سے گاڑی خریدتے ہیں اور جب اسے پاکستان بھیجتے ہیں تو حکومت پاکستان کو ڈیوٹیز اور ٹیکسز کی مد میں رقم فراہم کرتے ہیں۔
ان کے بقول ’یہ کمرشل امپورٹ نہیں ہے جس کی وجہ سے پاکستان سے پیسہ باہر جائے بلکہ اس سکیم سے ڈالرز سرکاری خزانے میں آتے ہیں۔‘
آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن نے وزیراعظم کو لکھے جانے والے خط کی کاپی وزارت خزانہ، وزارت تجارت سمیت متعدد اہم وزراء اور حکام کو بھی بھیجی ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/June/36516/2022/000_hkg9369539.jpg)
اس حوالے سے وزارت تجارت کے حکام کا کہنا ہے کہ ’خط میں دی گئی تجاویز کا جائزہ لیا جا رہا ہے لیکن براہ راست اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے ایسا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا۔‘
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حکام نے بتایا کہ ’کار ڈیلرز کا یہ کہنا کہ ان گاڑیوں کی امپورٹ میں پیسہ پاکستان سے باہر نہیں جاتا، درست نہیں ہے بلکہ یہ ڈیلرز بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کو پیسے دے کر ان کے ذریعے گاڑیاں امپورٹ کر سکیں۔ اس لیے پیسہ باہر تو جاتا ہے لیکن اس کا طریقہ کار مختلف ہو سکتا ہے۔‘
حکام کا کہنا ہے کہ ملکی معاشی صورت حال بہتر ہونے کے ساتھ اگر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے اس سلسلے میں حکومت سے رابطہ کیا گیا تو اس کا جائزہ لے کر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم فی الحال ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2020-21 میں 40 ہزار گاڑیاں ٹی آر گفٹ سکیم کے ذریعے لائی گئیں جن سے کسٹم، ڈیوٹیز اور ٹیکسز کی مد میں قومی خزانے کو 30 کروڑ ڈالر ملا جو 60 ارب روپے بنتے ہیں۔ کورونا کی وبا سے قبل کے اعداد و شمار یعنی 2018-19 میں 80 ہزار گاڑیاں آئی تھیں اور 100 ارب روپے کا ریونیو وفاقی حکومت کو ملا تھا۔
![](/sites/default/files/pictures/June/36516/2022/pakwheels.jpg)