نیوی کے ترجمان کیپٹن انڈیکا ڈی سلوا کے مطابق رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران تقریباً 250 افراد کو پکڑا گیا ہے جو کشتیوں کے ذریعے ملک سے باہر جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
’عام طور پر ہم سال میں پانچ ایسی کشتیوں کو پکڑتے ہیں لیکن گزشتہ 45 دنوں میں تین کشتیوں کو پکڑ چکے ہیں۔‘
ترجمان کے مطابق سمگلز سیاسی اور معاشی بحران کے متعلق لوگوں کو بہکاتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ وہ بیرون ممالک میں اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ دو کروڑ 20 لاکھ کی آبادی والا ملک سری لنکا شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے، حد درجہ مہنگائی کے علاوہ ادویات اور تیل سمیت اشیائے خورد و نوش کی بھی کمی کا سامنا ہے۔
گزشتہ کئی سالوں کے دوران سری لنکن شہری معاشی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر غیرقانونی طریقے سے آسٹریلیا جاتے رہے ہیں لیکن چند ماہ میں ان واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ ماہ حکومت نے خبردار کیا تھا کہ اگست تک خوراک کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ سری لنکن حکومت کے کیمیائی کھاد پر عائد پابندی ختم کرنے کے باوجود اس کی درآمد ممکن نہیں ہو سکی ہے جو دراصل آئندہ پیداوار کے لیے درکار ہے۔
سماجی کارکن شیرین سرور نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’رہن سہن کے اخراجات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں اور حکومت کا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ غریب لوگوں کے لیے خوراک اور طبی ضروریات کو پورا کرے۔ اسی لیے لوگ اس ملک سے بھاگ رہے ہیں۔‘
جو لوگ سمندری راستوں سے ملک چھوڑ کر جانے کی کوشش کر رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر کھیتی باڑی اور ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
شیرین سرور کے مطابق کھاد کے مسائل کی وجہ سے گزشتہ سال یہ لوگ کاشتکاری نہیں کر سکے تھے۔
’چاول جو زندہ رہنے کے لیے بنیادی غذا ہے وہ ہی میسر نہیں ہے۔ جبکہ ایندھن کے بحران کی وجہ سے ماہی گیر بھی سمندر میں نہیں جا سکتے۔‘
شیرین سرور کا کہنا ہے کہ تمام مہاجرین آسٹریلیا کا رخ نہیں کرتے جبکہ کچھ ہمسایہ ملک انڈیا جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
’کم از کم انڈیا میں مہاجرین کیمپوں میں انہیں تین وقت کا کھانا اور کچھ حد تک طبی امداد تو مل ہی جائے گی۔‘