مہنگائی 25 فیصد تک پہنچ گئی تو کیا چیز کتنی مہنگی ہو گی؟
مہنگائی 25 فیصد تک پہنچ گئی تو کیا چیز کتنی مہنگی ہو گی؟
منگل 21 جون 2022 6:02
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق بھی گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح سی پی آئی انڈیکس کے مطابق 13 عشاریہ سات فیصد رہی (فوٹو: گیٹی امیجز)
یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گزشتہ چند ہفتوں میں تین بار بڑھنے کے ساتھ ہی مہنگائی میں بے حد اضافہ ہوا ہے تاہم اس حوالے سے حکومت، اپوزیشن اور ماہرین کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار کا گورکھ دھندا شاید کم ہی لوگوں کو سمجھ آتا ہے۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کے مطابق پاکستان میں افراطِ زر یا مہنگائی کی شرح 28 فیصد سے زائد ہو چکی ہے جبکہ معیشت دان ڈاکٹر اشفاق احمد کے مطابق مہنگائی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 25 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
اس ہفتے کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 51 بنیادی اشیا کی قیمتوں میں بھی گزشتہ سال کے اسی ہفتے کے مقابلے میں 27 عشاریہ آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں اعداد و شمار کے لیے قائم ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق بھی گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح سی پی آئی انڈیکس کے مطابق 13 عشاریہ سات فیصد رہی جو دو سال میں سب سے زیادہ ہے۔ اس سے قبل جنوری2020 میں 14 فیصد سے زائد مہنگائی سامنے آئی تھی۔
مہنگائی کے اعداد و شمار کیسے اکھٹے ہوتے ہیں؟
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے معاشی تجزیہ کار اور صحافی مہتاب حیدر نے بتایا کہ ’پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کو ایک سائنسی طریقہ کار کے مطابق ماپا جاتا ہے۔ اس حوالے سے دو اہم پیمانے ہیں ایک چھوٹا پیمانہ ہے جسے ایس پی آئی کہتے ہیں اس سے ہفتہ وار اہم اشیا کی قیمت میں اضافہ ماپا جاتا ہے۔ ایک بڑا پیمانہ ہے جس میں زیادہ اشیا کی قیمتوں کو ملک بھر میں ماہانہ بنیادوں پر ماپا جاتا ہے اسے کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کہتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’عام تاثر ہے کہ سی پی آئی میں 25 فیصد اضافے کا مطلب ہے انڈے، دال، چاول، چینی، پٹرول ہر چیز کی قیمت 25 فیصد بڑھ گئی ہے مگر ایسا نہیں ہوتا بلکہ کنزیومر پرائس انڈیکس کے لیے ہر چند سال بعد ایک فیملی بجٹ سروے کیا جاتا ہے جس میں آبادی کے عمومی استعمال میں آنے والی اشیا اور خدمات کا ایک سیٹ بنایا جاتا ہے جسے سی پی آئی باسکٹ کہا جاتا ہے۔ اس باسکٹ میں موجود مختلف چیزوں کی قیمتوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔‘
سی پی آئی باسکٹ میں پاکستانیوں کے اخراجات کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے شمار کیا گیا ہے جس کے مطابق ایک پاکستانی اپنے فیملی بجٹ کا اوسطاً 34.58 فیصد کھانے پینے کی اشیا پر خرچ کرتا ہے۔
فیملی بجٹ میں سے 26.68 فیصد مکان کے کرائے، بجلی، گیس، پانی کے بلوں اور ایندھن پر، 8.6 فیصد کپڑوں اور جوتوں کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے جبکہ 6.9 فیصد ہوٹلنگ، تقریباً چھ فیصد ٹرانسپورٹ، چار فیصد سے زائد گھر کی تزئین و آرائش اور مرمت پر، 3.8 فیصد تعلیم اور 2.7 فیصد صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔
پاکستان کا ادارہ شماریات ملک کے شہری علاقوں اور دیہاتی علاقوں سے قیمتوں کے اعداد و شمار اکھٹے کرتا ہے۔ مہتاب حیدر کے بقول ان سب اعداد و شمار کو اکٹھا کر کے ایک اوسط نکال لی جاتی ہے اور اس اوسط اضافے کو ’کنزیومر پرائس انڈیکس‘ کے تحت ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح بتائی جاتی ہے۔
’مثلا خوراک جس کا ویٹیج 34 فیصد ہے اس کی قیمتوں میں گزشتہ سال مئی کے مقابلے میں اس سال مئی میں کتنا اضافہ ہوا۔ 25 فیصد اضافے کا مطلب ہو گا کہ اگر ٹماٹر پچھلے سال 100 روپے کلو تھے اس سال 125 روپے کلو ہو گئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اسی طرح گھی، چینی، دالیں وغیرہ سب فوڈ آئٹمز ملا کر اگر تقریبا 20 فیصد بڑھ جائیں تو گویا تقریبا ایک تہائی سی پی آئی کا حصہ 20 فیصد بڑھا۔ اگر گھروں کے کرائے بجلی گیس وغیرہ کی قیمتیں 30 فیصد بڑھ جائیں تو ایک چوتھائی سی پی آئی 30 فیصد بڑھ گیا۔ اس طرح آخر میں ساری باسکٹ کے کل حصوں کی مہنگائی کا اوسط نکالا جاتا ہے اور پھر مہنگائی کی شرح سامنے آجاتی ہے۔‘
’مہنگائی سے مڈل اور نچلہ طبقہ بری طرح متاثر ہو گا‘
ماہر معیشت اور ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری سمجھتے ہیں کہ مہنگائی کی شرح جاننے کے لیے سب سے پہلے دیکھنا ہوگا کہ توانائی کی ضرویات کتنی مہنگی ہوئیں یعنی پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ سبسڈی کے خاتمے کے بعد پٹرول پہلے ہی کافی مہنگا ہو چکا ہے اب اگر پانچ روپے ماہانہ لیوی لگائی گئی تو اس کی قیمت مزید بڑھے گی۔
’اسی طرح بجلی کی فی یونٹ بنیادی قیمت میں بھی آٹھ روپے کا مرحلہ وار اضافہ ہو گا اور گیس بھی 44 سے 45 فیصد مہنگی ہو گی۔ یعنی اگر ابھی گیس کا بل سو روپی آتا ہے تو ڈیڑھ سو ہو جائے گا۔‘
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کے بقول ’جب ان تین چیزوں کی قیمت بڑھتی ہے تو باقی چیزیں انہی سے جڑی ہیں اور ان کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں جیسے کہ ڈیزل کی قیمت بڑھتی ہے تو کرائے بھی بڑھ جاتے ہیں اور دور سے لائی اشیا کی قیمتیں بھی۔ اسی طرح بجلی مہنگی ہونے سے صنعتی پیداوار مہنگی ہو جاتی ہے اور جب روپیہ کی قدر کم ہوتی ہے تو امپورٹڈ چیزوں کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کئی طرح کا بیک وقت اضافہ مڈل کلاس اور نچلے طبقے کو بہت بری طرح متاثر کرے گا۔‘