Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیالکوٹ کی فٹبال فیکٹری ’دنیا بھر میں نمبر ون‘ کیسے بنی؟

برسوں پہلے کی بات ہے سیالکوٹ کے ایک نوجوان سول انجینیئر تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے خاندانی کاروبار میں چچا کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔
ایک دن ان کے چچا نے فیصلہ کیا کہ وہ نوجوان اب ان کے ساتھ ان کی فٹ بال فیکٹری میں کام کرنے، اور ان کا سہارا لینے کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گا۔
انہوں نے بھتیجے کو اپنے پاس بلایا اور ان سے کہا کہ ’اب آپ اپنا کام خود اپنے بھروسے پر کریں۔‘ ساتھ ہی انہوں نے سیالکوٹ شہر کے اندر انہیں ایک جگہ فراہم کی اور وہاں سے اپنے علیحدہ کام کا آغاز کرنے کا کہا۔
یہ نوجوان خواجہ مسعود اختر تھے جنہوں نے چچا کی فیکٹری چھوڑنے کے بعد ایک کمرے سے ہاتھ سے بنے فٹ بال جوڑنے کا کام شروع کیا۔
انہیں آگے کا سفر کٹھن نظر آ رہا تھا۔ اس وقت سیالکوٹ دنیا کی فٹ بال پیداوار کا ایک بڑا حصہ برآمد کر رہا تھا اور ملک کے بڑے کارخانہ دار اور سرمایہ کار اس انڈسٹری سے وابستہ تھے۔
خواجہ مسعود اس کام میں طفل مکتب تھے اور آگے کیسے بڑھنا ہے، اس کا انہیں زیادہ اندازہ نہیں تھا۔
بہرحال انہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور ایک کمرے سے تنہا اپنے نئے سفر کا آغاز کردیا۔
ابتدائی طور پر انہوں نے چند ملازمین سے فٹبال سینے کا کام شروع کیا۔ اگلے تین سال ان کے لیے مشکل تھے۔ ورکرز کی تعداد 50 ہو گئی اور انہوں نے 1991 میں ’فارورڈ سپورٹس‘ کے نام سے ایک چھوٹی فیکٹری شروع کر دی، لیکن ابھی بھی اپنی مصنوعات کو ایک مناسب مارکیٹ میں فروخت کرنا اور برآمد کرنا ان کے لیے مشکل تھا۔
پھر ایک دن ان کی قسمت جاگی اور ان کے پاس جرمنی کی کمپنی ایڈی ڈاس، جو ورلڈ کپ سمیت بین الاقوامی ٹورنامنٹس کے لیے فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا اور دوسرے منتظمین کو فٹ بال فراہم کرتی تھی، کا نمائندہ آیا اور اس نے خواجہ مسعود اختر سے کہا کہ وہ سیالکوٹ میں فٹبال بنانے کا کچھ کام دوسری فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ ان سے بھی کروانا چاہتا ہے۔
بظاہر یہ ایک بڑی کامیابی تھی، لیکن اس کامیابی کے بعد کام اور وسائل کا انتظام کرنے کی پریشانی اور ایڈی ڈاس کے معیار کے مطابق فٹ بال بنانے کا چیلنج بھی تھا۔
خواجہ مسعود اختر نے اس چیلنج کو بھی قبول کیا اور ایڈی ڈاس کے ساتھ کام کرنا شروع ہو گئے۔

پاکستان میں بھی دوسرے صنعتکاروں کی طرح خواجہ مسعود اختر کو مشینری پر منتقل ہونا پڑا (فوٹو: اردو نیوز)

لیکن منزل ابھی دور تھی۔ ’فارورڈ سپورٹس‘ کا کام ابھی کچھ آگے بڑھا ہی تھا کہ دنیا میں ہاتھوں سے سیے گئے فٹ بال کے بجائے مشینوں پر تیار کیے گیے فٹ بال کی مانگ بڑھنا شروع ہو گئی۔
چین نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور مشینوں سے فٹ بال بنانے کی بڑی بڑی فیکٹریاں لگا کر پاکستان کے بیشتر آرڈر وہاں منتقل کروا لیے۔
پاکستان میں بھی دوسرے صنعتکاروں کی طرح خواجہ مسعود اختر کو مشینری پر منتقل ہونا پڑا اور اس کے لیے انہیں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت پڑی۔
لیکن وہ ابھی ہاتھوں سے سلائی مشینوں پر منتقل ہوئے ہی تھے کہ دنیا فٹ بال کی نئی ٹیکنالوجی تھرموپول کی طرف چل پڑی، اور اس کے لیے مزید جدید مشینری کی ضرورت پڑی۔
اس مشینری کے لیے ایک وسیع سرمائے کی ضرورت تھی جو اس وقت خواجہ مسعود اختر کے پاس نہیں تھا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب خواجہ مسعود اختر اور ان کی ’فارورڈ سپورٹس‘ ایک دو راہے پر آ کر کھڑے ہو گئے۔ یا تو وہ نئی مشینری کے لیے کہیں سے سرمائے کا بندوبست کرتے اور یا پھر دستیاب وسائل میں کام کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ایڈی ڈاس کا کانٹریکٹ کھو دیتے بلکہ عالمی مارکیٹ سے بھی باہر ہو جاتے۔
خواجہ مسعود نے ایک بڑا فیصلہ کیا۔ انہوں نے نہ صرف اس وقت کی مطلوبہ مشینری حاصل کرنے بلکہ اپنی فیکٹری کو انتہائی جدید بنانے اور بین الااقوامی سطح پر رائج ٹیکنالوجی کے حصول کا ارادہ کیا۔
اس ہدف کی تکمیل کے لیے درکار سرمائے کے لیے انہوں نے بینکوں سے قرضے حاصل کیے اور جدید مشینری کی تنصیب شروع کر دی۔
اس قرضے کی وجہ سے وہ مالی مشکلات کا شکار ہو گئے اور تین سال تک بحران میں فیکٹری چلاتے رہے، تاہم انہوں نے معیار اور ٹیکنالوجی پر سمجھوتہ نہیں کیا اور اس میں آگے بڑھتے ہی گئے۔

خواجہ مسعود اختر کے مطابق فارورڈ سپورٹس اس وقت دنیا کی سب سے بڑی فٹ بال فیکٹری ہے (فوٹو: اردو نیوز)

ورلڈ کپ کے لیے فٹ بال کی تیاری
دریں اثنا انہیں ایڈی ڈاس کی طرف سے ورلڈ کپ کے لیے فٹ بال بنانے کے آرڈرز ملنا شروع ہوگئے۔ اور فارورڈ سپورٹس نے پہلی مرتبہ 2014 میں برازیل میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ کے میچوں کے لیے ’برازوکا‘ فٹ بال بنایا۔
پھر انہیں روس میں 2018 میں ہونے والے ورلڈکپ کے لیے بھی ٹیلسٹار۔18 بنانے کا آرڈر ملا اور رواں برس نومبر میں قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے لیے بھی فارورڈ سپورٹس ’الراحلہ فٹ بال‘ بنا رہی ہے۔
فٹ بال پروڈکشن میں چین پر برتری
خواجہ مسعود اختر نے اردو نیوز کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ فارورڈ سپورٹس اس وقت دنیا کی سب سے بڑی فٹ بال فیکٹری ہے اور وہ ماہانہ لاکھوں کی تعداد میں فٹ بال برآمد کر رہے ہیں۔
’ہم اس وقت ماہانہ 10 لاکھ فٹ بال بنا رہے ہیں۔ اس وقت ہماری کمپنی (دنیا کی ) بہترین ٹیکنیکل کمپنی ہے۔ ہماری تحقیق اور ڈیویلپمنٹ بہترین ہے۔ ہماری ورلڈ کلاس لیبارٹری میں بین الااقوامی معیار کے 90 سے زائد ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ ہمارے پانچ ہزار سے زائد ملازمین ہیں جن میں سے دو ہزار سے زائد خواتین ہیں۔‘
خواجہ مسعود اختر نے بتایا کہ وہ فٹ بال مینوفیکچرنگ میں چین کے تیز ترین سروس فراہم کرنے کے تاثر کو شکست دے چکے ہیں اور اس وقت دنیا میں تیز ترین اور بہترین فٹ بال بنانے کا اعزاز سیالکوٹ کی فارورڈ سپورٹس کو حاصل ہے۔
’ہم نے چین کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ایڈی ڈاس سے تیز رفتار پیداوار کی ٹرافی بھی لی ہے، ہم چین سے زیادہ تیز، سستے، انوویٹو اور تحقیق پر مشتمل جدید فیکٹری ہیں۔‘
خواجہ مسعود کا کہنا تھا کہ دوسرے شعبوں میں بھی یہ معیار حاصل کیا جا سکتا ہے اگر پاکستان صنعتوں اور اداروں میں بہترین کارکردگی والا نظام نافذ کر دے۔

خواجہ مسعود کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان تقریبا 450 ملین ڈالر کے فٹ بال برآمد کر رہا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

’لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ورکر اچھا نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں ہمارے ہاں نظام اچھا نہیں ہے۔ اگر آپ نظام میں کارکردگی لے آتے ہیں تو چین کو پیچھے چھوڑ دیں گے، ہمیں ورکر نہیں سسٹم کی کارکردگی درکار ہے۔‘
خواجہ مسعود کہتے ہیں کہ اگر آپ تحقیق، ورکرز کی تربیت اور تحقیق کے نتیجے میں جدید مشینری لگاتے جائیں گے تو آپ کی فیکٹریاں بہتر سے بہتر تر ہوتی جائیں گی۔
’کوالٹی بہتر ہوگی، ضیاع کم ہو گا، کارکردگی بہتر ہو گی۔‘
خواجہ مسعود کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان تقریبا 450 ملین ڈالر کے فٹ بال برآمد کر رہا ہے۔ اگر یہاں پیداواری نظام بہتر ہو جائے تو فٹ بال میں اور دیگر برآمدات میں بھی مزید بہتری لائی جا سکتی ہے۔
فٹ بال کے پرفیکشن ٹیسٹ
فارورڈ سپورٹس نے فٹ بال کے بین الاقوامی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ایک انتہائی جدید لیبارٹری بنا رکھی ہے جہاں پر اس کی حتمی پیکنگ سے پہلے متعدد ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔
اس لیبارٹری کے مینیجر سہیل غوری نے اردو نیوز کو بتایا کہ فٹ بال کی فروخت سے پہلے اس کو مشینی انداز میں 3500  سٹروکس لگائے جاتے ہیں، پانی میں پائیداری اور ٹیمپریچر کی آزمائش کے لیے سات دن تک گرم ماحول میں رکھا جاتا ہے۔ اور صرف وہی فٹ بال برآمد کیے جاتے ہیں جو ان ٹیسٹس پر پورا اترتے ہیں۔
قطر 2022 کے فٹ بال ’الراحلہ‘ کی خصوصیات
خواجہ مسعود اختر کے مطابق قطر ورلڈ کپ کے لیے تیار کیا گیا ’الراحلہ‘ فٹ بال ماحول دوست ہے اور اس میں نئی خصوصیات ہیں جو اس سے پہلے بننے والے فٹ بال میں نہیں ہوتی تھیں۔

ورلڈ کپ عرب خطے میں ہونے کی وجہ سے اس کو عربی نام ’الراحلہ‘ دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے سفر (فوٹو: اردو نیوز)

اس فٹ بال میں کافی سارا ری سائیکل ہونے والا مواد استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایسا کیمیائی مواد بھی ہے جو فٹ بال کی مدت پوری ہونے کے بعد خود ہی ختم ہو جائے گا اور ماحول کے لیے نقصان دہ فضلے کا باعث نہیں بنے گا۔
ورلڈ کپ عرب خطے میں ہونے کی وجہ سے اس کو عربی نام ’الراحلہ‘ دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے سفر۔
فارورڈ سپورٹس بغیر ہوا کے فٹ بال کا موجد
خواجہ مسعود اختر کے مطابق ایڈی ڈاس نے فٹ بال میں ہوا بھرنے سے بچنے کے لیے چین کو ’بغیر ہوا کے‘ فٹ بال بنانے کے لیے تجویز دی تھی۔ جس پر چینی ماہرین نے کچھ عرصہ کام کیا، تاہم ایک جگہ پر جا کر وہ رک گئے اور اس سے آگے اس فٹ بال کی تیاری کی انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
’پھر ہم نے زیرو سے شروع کیا اور اس کو بنا لیا۔ ہم چھوٹے بال سے شروع ہوئے، تحقیق کی، ٹیکنالوجی کا استعمال کیا، ڈیرھ دو سال لگے، مشینری بنانا پڑی، اور پھر ہم نے ’بغیر ہوا کے فٹ بال‘ بنا لیا۔‘
’اس بال میں دس سال تک ہوا نہیں بھرنا پڑے گی اور یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ دوسرے نارمل فٹ بال۔‘

شیئر: