Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوانتاناموبے سے 15 برس بعد افغان قیدی رہا، کابل میں شاندار استقبال

رہا کیے گئے اسداللہ ہارون نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ان کو جرم نہیں بتایا گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکہ کی بدنام زمانہ گوانتاموبے جیل سے 15 برس بعد رہا کیے جانے والے افغان شہری کا گھر پہنچنے پر ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسداللہ ہارون نامی افغان شہری نے کیوبا کے جزیرے پر قائم امریکی جیل میں برسوں بغیر کسی فردِ جرم عائد کیے جانے کے گزارے۔
اسداللہ ہارون کو سنہ 2006 میں حراست میں لیا گیا تھا جب وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفر کر رہے تھے۔ وہ خود کو شہد کا تاجر قرار دیتے ہیں جبکہ امریکہ نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ القاعدہ کے پیغام رساں اور عسکریت پسند گروپ حزب اسلامی کے کمانڈر ہیں۔
کابل ایئرپورٹ پہنچنے پر اسداللہ ہارون نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا پہلا سوال یہ ہے کہ کس بنیاد پر مجھے گوانتاناموبے میں رکھا گیا۔‘
قبل ازیں طالبان حکام نے ان کی پرائیویٹ جیٹ کے ذریعے قطر سے آنے کی تصاویر جاری کی تھیں جن میں اُن کے ساتھ طالبان کے سینیئر عہدیدار بھی نظر آ رہے ہیں۔
طالبان رہنماؤں جیسی کالی پگڑی سر پر باندھے اسداللہ ہارون نے کہا کہ ان کے خاندان اور رشتہ داروں نے بہت مشکل وقت دیکھا۔
گوانتاموبے سے رہا ہونے والے اسداللہ ہارون کے بڑے بڑے بینرز کابل ایئرپورٹ کی شاہراہ کے اطراف بجلی کے کھمبوں کے ساتھ لگائے گئے تھے۔
امریکی حکام کو دنیا بھر میں گوانتاموبے کی جیل کے باعث سخت تنقید اور وہاں قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی وجہ سے سُبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
گوانتانامو جیل میں قیدیوں کو بیڑیاں لگا کر پنجروں میں بند رکھا گیا تھا اور تشدد کے بدترین اور غیرقانونی طریقوں کا شکار بنایا گیا۔
اسداللہ ہارون نے بتایا کہ وہاں صرف جسمانی تشدد ہی نہیں تھا بلکہ ذہنی دباؤ دن بدن  بڑھتا رہا۔ ’ہم اس کو سفید فام تشدد قرار دیتے تھے۔‘
اسداللہ کی رہائی پر ان کے گھر میں جشن کا سماں تھا۔ ان کے پشاور میں مقیم بھائی رومان خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ ہمارے گھر میں عید کا دن ہے، ایک شادی کی سی خوشی ہے۔ یہ ہمارے لیے نہایت جذباتی گھڑیاں ہیں۔‘

رہا کیے گئے اسداللہ ہارون کی والدہ بیٹے کی تصویر کو چوم رہی ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سنہ 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد اسداللہ ہارون کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آ گیا تھا اور ان کے اہلخانہ تسلیم کرتے ہیں کہ اسداللہ حزب اسلامی کے رکن تھے تاہم ان کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ اسداللہ کی رہائی طالبان اور واشنگٹن کے درمیان ’براہ راست اور مثبت‘ رابطے کے بعد ہوئی۔
گوانتانامو میں اب صرف ایک افغان قیدی محمد رحیم رہ گیا ہے جس کے بارے میں طالبان ترجمان نے کہا کہ ان کو امید ہے جلد رہا کر دیا جائے گا۔

شیئر: