Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ میں ضبط 41 ارب روپوں کی پاکستان منتقلی کا معاملہ، کابینہ کمیٹی کا اجلاس طلب

کابینہ کے اجلاس میں اجلاس میں اس سوال پر بحث ہوگی کہ ’فنڈز برطانیہ سے پاکستان کس اکاؤنٹ میں منتقل اور کہاں استعمال ہوئے؟‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
کابینہ کمیٹی نے برطانیہ سے 41 ارب روپے پاکستان منتقل کے جانے کے معاملے پر کل (جمعرات کو) اجلاس طلب کر لیا ہے۔
بدھ کو کیبنٹ سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے نوٹیفیکشن کے مطابق وزیر دفاع خواجہ آصف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں ’احمد علی ریاض اینڈ فیملی اور بحریہ ٹاون کے اکاؤنٹس منجمند ہونے کے معاملے کا جائزہ لیا جائے گا۔‘
اجلاس میں اس سوال پر بحث ہوگی کہ ’فنڈز برطانیہ سے پاکستان کس اکاؤنٹ میں منتقل اور کہاں استعمال ہوئے؟‘
 اجلاس میں وزیر دفاع کے علاوہ خزانہ،  قانون و انصاف، داخلہ اور مواصلات کے وزراء شرکت کریں گے جبکہ وزیر مملکت خارجہ امور، پیٹرولیم اور وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر کو خصوصی دعوت نامہ جاری کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں اٹارنی جنرل، گورنر سٹیٹ بینک، سیکرٹری خارجہ، سیکرٹری کابینہ اور سیکرٹری داخلہ کو بھی اجلاس میں بلایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ رواں ماہ 14 جون کو پاکستان کی وفاقی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ گذشتہ حکومت نے بحریہ ٹاؤن کی برطانیہ میں ضبط کی گئی رقم سے متعلق تصفیہ کر کے ریلیف دیا اور الزام عائد کیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق خاتون اول کے نام منتقل کی ہے۔‘
اسلام آباد میں وفاقی وزرا کے ساتھ کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ ’برطانیہ میں پاکستان کے پکڑے گئے 50 ارب روپے سرکاری خزانے میں جمع نہیں کیے گئے۔‘
اسی پریس کانفرنس میں وزیر مملکت برائے توانائی مصدق ملک کا کہنا تھا کہ ’برطانیہ میں میں بحریہ ٹاؤن کے 180 ملین پاؤنڈز اکنامک کرائمز ایکٹ کے تحت پکڑے گئے۔‘
انہوں نے کہا کہ عدالت سے باہر تصفیے کے تحت معاہدے کو خفیہ رکھا گیا۔
 
اس سے قبل دسمبر 2019 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ ’بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کے لندن سے آنے والے 19 کروڑ پاؤنڈز سپریم کورٹ میں جمع ہوں گے جبکہ حکومت نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ یہ رقم سندھ کو دینے کے بجائے وفاق کو دی جائے۔‘
شہزاد اکبر نے مزید کہا تھا کہ ’یہ ایک تاریخی موقع ہے اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی دوسرے ملک سے رقم پاکستان آئی ہے، اس حوالے سے پریس ریلیز پہلے ہی جاری کی جا چکی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’رقم کی منتقلی کسی عدالتی مقدمے کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایک تصفیے کے ذریعے ہوئی ہے، اگر عدالتی معاملہ شروع ہو جاتا تو پانچ سات سال لگ سکتے تھے، ہم برطانوی حکومت اور نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اتنے کم وقت میں اس معاملے کو نمٹایا۔‘

شیئر: