عید مبارک مگر اہل وطن کے لیے مبارکباد کے دروازے تنگ سے تنگ! ماریہ میمن کا کالم
عید مبارک مگر اہل وطن کے لیے مبارکباد کے دروازے تنگ سے تنگ! ماریہ میمن کا کالم
پیر 11 جولائی 2022 8:48
ماریہ میمن
عید پر خریدنے والوں کی قوت خرید زوال پذیر ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
عید کے روز یہ سطور تحریر کرتے ہوئے اگر گرد و پیش پر نظر دوڑائیں تو اہل وطن کے لیے مبارکباد کے دروازے تنگ سے تنگ تر ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اب معاشرتی زندگی کا عکس ہے۔ وہاں پر گالی گلوچ، بد زبانی اور دھمکیوں کا چلن ہے۔
باہر نکلیں تو عوام مہنگائی سے بد حال ہیں۔ ٹی وی پر عید کے جانور خریدنے اور بیچنے والے مشترکہ دہائی دے رہے ہیں۔ خریدنے والوں کی قوت خرید زوال پذیر ہے اور بیچنے والے منافعے کے لیے متفکر ہیں۔
موسم کا ذکر غیر متنازع موضوع ہوتا ہے مگر اب تو بارش بھی عوام خصوصا غریب لوگوں کے لیے آزمائش کی گھڑی لے کر آتی ہے۔ ایک طرف بلوچستان میں درجنوں افراد کی ہلاکت ہے تو دوسری طرف عام موسمی بارش بھی کراچی میں معاملات زندگی معطل کر دیتی ہے۔
سیاست، صحافت، معیشت اور معاشرت میں پے در پے بحرانوں کے بعد بندہ یہی سوچتا ہے کہ عید مبارک تو ہے مگر؟
سوال یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں تحمل، بردباری اور برداشت کا مادہ کب واپس آئے گا۔ کب لوگ اصول پہ ڈٹے بھی رہیں گے مگر حقوق کی پاسداری بھی کریں گے؟
دنیا میں جمہوریت کا ماخذ برطانیہ ایک کے بعد ایک وزیر اعظم بدل رہا ہے۔ پہلے پارٹی نے عدم اعتماد کا اظہار کیا اور اس کے بعد کابینہ کے بیشتر اراکین نے استعفی دے دیا۔ کہیں سے بھی سیاسی حریف ایک دوسرے کو اس طرح القابات سے نہیں پکار رہے جیسا پاکستان میں چلن ہے۔
ہمارے ہاں کبھی عید پر نہیں سنا کہ حکومت اور اپوزیشن کے ارکان ایک دوسرے سے عید ملے ہوں یا عید کی مبارکباد دی ہو۔ ایسا بھی نہیں کہ نجی طور پر سیاستدان ایک دوسرے سے سماجی رابطہ نہیں رکھتے مگر عوام کو یہی تاثر ہے کہ مخالف فریق دشمن سے کم نہیں۔
عوام بھی اپنا سب کچھ چھوڑ چھوڑ کر ایسے سیاست میں کھبے ہیں کہ نہ کوئی اور کھیل تفریح ہے اور نہ کہیں کتاب کا ذکر۔ بس واٹس ایپ ہی اور عید کے دن بھی سیاسی فاورڈد میسیجز۔
صحافت بھی سیاست کا پر تو ہوتی ہے۔ ایک دور تھا کہ دائیں اور بائیں بازو ہوتے تھے۔ اسی طرح کہیں کہیں سیاسی جھکاؤ بھی ہوتا تھا مگر کوئی کسی کو بکاؤ نہیں کہتا تھا۔
سینئر صحافی رہنما آمریت کے دور میں پابندیوں اور جیل یاترا کی کہانیاں سناتے تھے۔ نوجوان نسل سوچتی تھی کہ یہ سب تو سوشل میڈیا سے پہلے کی باتیں ہوں گی۔ نوجوان نسل کو یقیناً اب اپنی لا علمی کا احساس ہو گیا ہو گا۔
آج کے دن درجنوں صحافی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ کئی ایک کو تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ دھمکیاں اور گالیاں تو خیر معمول ہیں۔ جس طرح سیاسی کارکن ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں اسی طرح صحافی بھی متحارب گروہوں میں تقسیم ہیں۔ زیادہ وقت اور توانائی ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے میں لگ رہی ہے۔ سوشل میڈیا نے 24/7 والے صحافی بنائے ہیں اور عید کا دن بھی گروہ بندی اور صف آرائی میں ہی گزر رہا ہے۔
معاشرت بھی تقسیم در تقسیم ہے۔ ہمارہ معاشرہ پہلے ہی تعصبات اور تفرقات سے بھرپور ہے۔ اب سیاست اور صحافت کے چلن کا اثر معاشرت پر بھی ہے۔ مگر اصل قیامت تو معیشت نے ڈھائی ہے۔
آج کے دن غریب بے بس ہے اور متوسط طبقہ مجبور۔ مسائل اور وسائل میں کوئی توازن ہی نظر نہیں آ رہا۔ اس عید پر دیکھا کہ مناسب وسائل والے کئی خاندان عید پہ اخراجات کی وجہ سے اپنے عزیز و اقارب سے ملنے نہیں جا سکے۔ ایک طرف اس کی ذمہ دار حکومت ہے مگر کچھ ذمہ داری عوام پر بھی عائد ہوتی ہے۔
آج کے دن بھی خواتین کے حصولِ روزگار میں رکاوٹیں ہیں۔ جہاں جہاں پر خواتین معیشت میں سرگرم عمل ہیں وہاں وہاں نسبتاً خوشحالی ہے۔
آج کے دن بھی اچھے خاصے پڑھے لکھے خاندان گھریلو ملازمین کو بنیادی تنخواہ 25 ہزار بھی ادا نہیں کر رہے یہی حال ریستوران ویٹرز، سکیورٹی گارڈز اور دیگر شعبوں کا ہے۔
ہم سب سری لنکا اور دیگر ملکوں کے حالات دیکھ رہے ہیں۔ ہر کوئی اس کو اپنے زاویے سے دیکھ رہا ہے مگر سمجھنے کی بات یہی ہے کہ اس کے لیے حکومت اور معاشرت دونوں کو ہی اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔ عوام کو حکومت پر دباؤ برقرار رکھنا ہو گا کہ وہ اپنے وسائل عوام کی بہبود میں لگائیں مگر عید مبارک کا پیغام یہی ہی اس کے ساتھ ہم سب کو اپنی ذات سے بڑھ کراپنا اخلاقی اور معاشرتی کردار بھی ادا کرنا ہو گا۔