Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضمنی انتخابات: پنجاب کے مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کون ہیں؟

صحافی عامر ضیا کے مطابق ’مسٹر ایکس کا لفظ ابن صفی کے ناولوں میں ایک جاسوس کردار کا ملتا ہے‘ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)
پاکستان میں آج کل سیاسی درجہ حرارت بڑھا ہوا ہے اور اس کی وجہ صوبہ پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر آج کل ان حلقوں میں جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ عمران خان کی توپوں کا رخ اپنے مخالفین سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے اور وہ مختلف طریقوں اور الفاظ کے انتخاب سے یہ تنقید کر رہے ہیں۔  
پہلے انہوں نے نیوٹرلز کا لفظ استعمال کیا تو اب وہ جلسوں میں مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کی اصطلاحات استعمال کررہے ہیں۔
جب انہوں نے الیکشن مہم کا آغاز کیا تھا تو اس وقت انہوں نے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ایک افسر کا نام لے کر بھی تنقید کی اور الزام عائد کیا کہ وہ پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات پر اثر انداز ہو رہے ہیں، تاہم اب وہ نام لینے کے بجائے متبادل الفاظ کا استعمال کر رہے ہیں۔  
صحافی عامر ضیا سمجھتے ہیں کہ ’عمران خان سوچ سمجھ کر ان الفاظ کا انتخاب کر رہے ہیں۔ ’اگر آپ مسٹر ایکس کی بات کریں تو یہ لفظ آپ کو ابن صفی کے ناولوں میں ایک جاسوس کردار کا ملتا ہے۔‘
’اس سے صاف ظاہر ہے کہ عمران خان کس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ چونکہ وہ جارحانہ سیاست کے قائل ہیں اس لیے وہ اپنی مرضی سے کبھی فرنٹ فٹ پر آجاتے ہیں اور کبھی الفاظ کے انتخاب میں ردوبدل کر لیتے ہیں بلکہ پوری تحریک انصاف کی قیادت یہ لائن لیتی نظر آرہی ہے۔‘  
خیال رہے کہ بدھ کے روز لاہور میں تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ادارے اور عوام ایک ہی سمت میں اچھے لگتے ہیں۔‘
’پاکستان میں آنے والے نرم انقلاب کی راہ میں ادارے رکاوٹ نہ بنیں۔ عمران خان اور عوام ایک طرف کھڑے ہیں جبکہ اشرافیہ دوسری طرف ہے، یہ تصادم اچھا نہیں ہوگا۔‘

عمران خان نے پہلے نیوٹرلز کا لفظ استعمال کیا تو اب وہ جلسوں میں مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کی اصطلاحات استعمال کررہے ہیں (فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)

فواد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ ’ان کی جماعت کے پاس دو ہی آپشنز ہیں یا تو انقلاب سے ہوش میں آئیں یا پھر سری لنکا جیسے حالات پیدا ہوجائیں۔ انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور پنجاب کے وزیر داخلہ عطااللہ تارڑ کو اسٹیبلشمنٹ کے مہرے قراردیا۔‘  
سیاسی پنڈت سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت دباؤ بڑھا کر اپنا راستہ بنانا چاہتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’عمران خان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیسے اثرانداز ہوتی ہے۔‘
’چونکہ 2018 میں ان کے لیے راہ ہموار کی گئی تھی۔ اس لیے انہیں دھڑکا لگا ہوا ہے کہ اب وہی کچھ ان کے خلاف نہ استعمال ہو۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے یہ بیانات صرف اس لیے ہیں کہ ان کو اقتدار میں واپس آنے کی جلدی ہے، حالانکہ انہوں نے اپنی گیم بنا لی ہے۔ وہ اگر صبر و تحمل کی سیاست کریں تو واپسی کے راستے نکل سکتے ہیں۔‘  

صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’عمران خان کے یہ بیانات صرف اس لیے ہیں کہ ان کو اقتدار میں واپس آنے کی جلدی ہے‘ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)

سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’عمران خان اس وقت دو طرح سے کھیل رہے ہیں، ’ایک طرف وہ صحافیوں کو مل کر کہتے ہیں انہوں نے نمبر ان بلاک کر دیے ہیں۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ وہ اب کسی کو آواز دے رہے ہیں اور مذاکرات کے موڈ میں ہیں جبکہ دوسری طرف انہوں نے جلسوں میں اپنی جارحانہ حکمت عملی بھی قائم رکھی ہوئی ہے۔‘  

شیئر: