Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتخابات میں دھاندلی کے لیے رائج حربے کون سے ہیں؟

رپورٹ میں انتخابات سے پہلے کے 60 سے 90 روز کے اندر دھاندلی یا انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کے 51 طریقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی 20 صوبائی نشستوں پر ضمنی انتخاب جوں جوں قریب آ رہا ہے دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ان انتخابات میں فیصلہ کن برتری کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔ ایسے میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اور شور بھی سنائی دے رہا ہے۔ 
پاکستان میں منعقد ہونے والے چند ایک انتخابات کو چھوڑ کر کسی بھی الیکشن کو دھاندلی سے مکمل پاک قرار نہیں دیا جا سکا اور ہر انتخاب میں ہارنے والی جماعت نے جیتنے والے پر دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔  
ماضی میں میڈیا اور موبائل کیمروں کی عدم موجودگی میں ووٹ ڈالنے کے عمل پر اثر انداز ہونا کافی آسان ہوتا تھا۔
جدید ٹیکنالوجی کے آ جانے کے بعد پولنگ ڈے پر جعلی ووٹ ڈلوانا اور گڑبڑ کرنا اب کچھ مشکل ہے لیکن ماہرین کے مطابق اب بھی انتخابات پر اثر انداز ہونے کے کئی جدید اور قدیم طریقے ہیں۔ 
اپنے نمائندوں کے ذریعے انتخابات کی نگرانی کرنے والی سماجی تنظیم ’پتن ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن‘ نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اس وقت پاکستان میں انتخابی دھاندلی اور ووٹنگ پر اثرانداز ہونے کے کل 163 طریقے رائج ہیں۔  
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان 163 طریقوں میں سے 26 طریقے انتخابی عمل کے دوران اپنائے جاتے ہیں جبکہ 75 طریقے پولنگ ڈے پر، 51 پولنگ سے پہلے اور 11 پولنگ کے بعد استعمال کیے جاتے ہیں۔ اور تمام آزمودہ طریقوں میں طاقت یا پیسے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ 

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گران حکومتوں کی تعیناتی بھی انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ (فائل فوٹو : اے ایف پی)

رپورٹ کے مطابق کئی مواقع پر دیکھا گیا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کا عمل چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کی تعیناتی سے ہی شروع ہو جاتا ہے، انتخابی نتائج مرضی کے مطابق حاصل کرنے والی قوتیں اپنے من پسند افراد کو ان عہدوں پر تعینات کرنے میں کامیابی حاصل کر لیتی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی نگران حکومتوں کی تعیناتی بھی انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کی راہ ہموار کرتی ہے۔  

انتخابات پر اثر انداز ہونے کے دائمی طریقے 

’پتن‘ کی رپورٹ نے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے کچھ دائمی طریقوں کی نشاندہی کی ہے جن میں اہم ضلعی اور دوسرے عہدوں پر افسران کی تعیناتی اور ترقی، مقامی سطح پر کچھ گروہوں کے سربراہان کو ترقیاتی فنڈز اور انتظامی کمیٹیوں کی نمائندگی کے ذریعے فائدہ پہنچانا، جھوٹی خبریں اور سروے پھیلانا، قوانین میں ترامیم کروانا، حلقہ بندیوں میں مرضی کی ترمیم کروانا، مساویانہ بنیادوں پر ووٹ ڈالنے کا حق نہ دینا، ووٹ منتقل کر دینا، ووٹ گنتی کے وقت بجلی بند کروا کر ووٹوں میں رد و بدل کرنا شامل ہے۔ 

قبل از انتخابات نتائج کو اپنے حق میں موڑنے کے طریقے 

رپورٹ میں انتخابات سے پہلے کے 60 سے 90 روز کے اندر دھاندلی یا انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کے 51 طریقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں مرضی کے انتخابی عملے کی تعیناتی، ضلعی افسران کے تبادلے، لوڈ شیڈنگ کے شیڈول میں تبدیلیاں، مرضی کے ججز کی تعیناتی، مقدمات کا اندراج اور اخراج، قرضوں کی معافی اور یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی، پولنگ سٹیشن مخصوص ووٹروں سے دور بنانا، پولنگ کے طریقے میں غیر اعلانیہ تبدیلیاں، مخالف امیدواروں کو مشکوک طریقوں اور غیر سنجیدہ وجوہات کی بنا پر نااہل کروانا، ایک ہی گھرانے کے ووٹرز کے ووٹوں کو مختلف پولنگ سٹیشنوں پر تقسیم کر دینا، پولنگ ایسے دن پر کروانا جب ایک مخصوص جماعت کو فائدہ ہو، کمزور امیدواروں کو مقبول جماعت یا امیدوار سے ملتے جلتے انتخابی نشان الاٹ کر دینا، مخالف ووٹرز کے شناختی کارڈ چھین لینا یا پیسوں کے عوض انتخابی عمل کے خاتمے تک تحویل میں لے لینا، ووٹ خرید لینا، ملازمین اور ماتحتوں کو کسی ایک جماعت کی حمایت پر مجبور کرنا، پولنگ سٹاف کی خاطر مدارت اور میزبانی کے ذریعے ہمدردیاں حاصل کرنا، کھانا اور اشیائے ضروریہ کی مفت تقسیم، مخالف جماعت کے کارندوں اور پولنگ ایجنٹس کو خرید لینا شامل ہے۔ 
 

پولنگ ڈے پر بھی کئی طریقوں سے دھاندلی کی جاتی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پولنگ ڈے پر ہونے والی دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے طریقے 

پولنگ ڈے کے دن ہونے والی دھاندلی کے طریقوں میں سکیورٹی ناکافی ہونا، دھاندلی کے مرتکب افراد کے خلاف کاروائی نہ کرنا یا اس میں تاخیر کرنا، پولنگ ایجنٹس کو پولنگ کے عمل سے باہر رکھنا یا دور بٹھانا یا تاخیر سے پولنگ کے کمرے میں داخلے کی اجازت دینا، ایک وقت میں بہت سے لوگوں کو پولنگ والے کمرے میں گھسا کر جعلی ووٹ ڈالنا، ٹرن آؤٹ کم کرنے کے لیے تشدد کروانا، بیلیٹ پیپر چوری کروانا، ووٹوں والے ڈبے کو مکمل طور پر بند نہ کر کے ردوبدل کا موقع فراہم کرنا، شناختی کارڈ کے بغیر ووٹ کی پرچی دے دینا، ووٹرز کے انگوٹھوں پر نشان نہ لگانا، بیلیٹ پیپرز کی پشت پر تصدیقی مہر نہ لگانا اور دستخط نہ کرنا، ووٹرز کا انگوٹھا نہ لگوانا، وقت ختم ہو جانے کے بعد ووٹ ڈلوانا، ووٹ کی پرچیاں خراب کر دینا، مسترد شدہ ووٹوں کو الگ نہ کرنا، ووٹرز فہرستوں کو مناسب طریقے سے مرتب نہ کرنا، پوسٹل بیلیٹس کو نہ گننا اور نتائج کے اعلان میں جان بوجھ کر تاخیر کرنا شامل ہے۔  

پولنگ مکمل ہو جانے کے بعد نتائج متاثر کرنے کے طریقے 

پتن رپورٹ کے مطابق پولنگ کا عمل مکمل ہو جانے کے بعد نتائج پر اثرانداز ہونے کے لیے اپنائے جانے والے طریقوں میں نتائج کے اعلان میں دانستہ تاخیر، انتخابی مواد کی مناسب جانچ پڑتال نہ کرنا، انتخابی خلاف ورزیوں پر جانب دارانہ کارروائیاں، خرچ کیے گیے فنڈز کی غیرشفافیت کی غیر منصفانہ تحقیقات، امیدوراوں کے اعتراضات اور نتائج کے خلاف درخواستوں کو قبول نہ کرنا اور قبول کی گئی درخواستوں پر فیصلوں میں تاخیر شامل ہے۔ 
اس رپورٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے سرور باری، جو ’پتن‘ کے کوآرڈینیٹر اور خود بھی ایک تجربہ کار الیکشن آبزرور ہیں، نے اردو نیوز کو بتایا کہ جہاں کہیں بھی تمام امیدوراوں کو انتخاب لڑنے یا انتخابی مہم چلانے یا ووٹرز تک رسائی حاصل کرنے کے یکساں مواقع نہیں ملتے وہاں الیکشن جائز اور غیرجانبدار نہیں ہوتے۔ 
’دھاندلی اب بہت عمدہ شکل اختیار کر چکی ہے۔ اب نتائج کو اپنے حق میں موڑنے کے لیے کئی غیر روایتی طریقے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔‘ 

رپورٹ کے مطابق انتخابی بے ضابطگیوں کا الیکشن کے نتائج پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’ماضی کے برعکس اب لوگوں کے ووٹ خریدے نہیں جاتے بلکہ مخالف ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے جدید طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔‘ 
سرور باری کا کہنا ہے کہ ان جدید طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ ’جس علاقے سے امیدوار کو اپنے خلاف ووٹ پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے وہ اس علاقے کے بڑوں سے رابطہ کر کے پوری برادری کے شناختی کارڈ اپنے پاس رکھ لیتا ہے اور اس کے بدلے ان کو فی کس ہزاروں روپے کی رقم ادا کر دی جاتی ہے۔‘
انتخابی عمل مکمل ہو جانے کے بعد یہ شناختی کارڈز واپس کر دیے جاتے ہیں۔  

دھاندلی اور انتخابی بے ضابطگیوں میں فرق 

انتخابات کی نگرانی کرنے والی پاکستان کی بڑی تنظیم فافن کے سینیئر عہدیدار مدثر رضوی کے مطابق انتخابی عمل میں زیادہ تر بے ضابطگیاں ہوتی ہیں جو درحقیقت الیکشن قوانین کی خلاف ورزیاں ہیں۔ دھاندلی صرف اس عمل کو کہا جا سکتا ہے جس میں کوئی سرکاری افسر یا حکومت کسی ایک امیدوار کو جتوانے کے لیے کردار ادا کرے اور یہ تحقیق کے بعد ثابت ہو جائے۔  
 

فافن کے عہدے دار مدثر رضوی کے بقول انتخابی قانون کی 240 شقیں ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تاہم انہوں نے کہا کہ کئی بے ضابطگیاں ایسی ہوتی ہیں جو پولنگ کے نتائج کو تبدیل کر دیتی ہیں۔ ’انتخابی قانون کی 240 شقیں ہیں اور ان کی پھر کئی ذیلی شقیں ہیں۔ اس طرح یہ مجموعی طور پر لگ بھگ چار، پانچ سو ضابطے بنتے ہیں جن کی خلاف ورزی انتخابی بے ضابطگی تصور کی جائے گی۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’لیکن کچھ بے ضابطگیاں ایسی ہیں جن سے انتخابات پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے، جیسے کہ حلقہ بندیوں کو ایک مخصوص انداز سے ترتیب دینا، ووٹروں کی فہرست کو مرضی سے ترتیب دینا اور پولنگ سٹیشنز کو مخصوص لوگوں کی پہنچ سے دور بنانا۔‘
الیکشن کمیشن کے ’فول پروف‘ اقدامات 
الیکشن کے ترجمان ہارون خان نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ہر انتخاب میں بالعموم اور حالیہ ضمنی انتخاب میں بالخصوص انہوں نے منظم دھاندلی اور بےضابطگیاں روکنے کے لیے فول پروف اقدامات کیے ہیں۔  
’2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے عدالتی تحقیقاتی کمیشن نے بھی کہا تھا کہ دھاندلی نہیں بلکہ بد انتظامی ہوئی تھی، ہمارے ہاں دھاندلی نہیں بلکہ کلچر کی وجہ سے، لوگوں کے جذبات کی وجہ سے بد انتظامی ہو جاتی ہے، لیکن منظم دھاندلی نہ 2013 میں ہوئی نہ 2018 میں ہوئی اور نہ ہم اس مرتبہ ہونے دینگے۔   اس پر ہمارا پورا سٹاف کام کر رہا ہے اور اس کو ہم یقینی بنائیں گے۔‘

شیئر: