Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضمنی انتخابات کا بڑا معرکہ لاہور میں،’سب ایک جیسے ہی لگ رہے ہیں‘

شہری انتخابات میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں اور سب سے بڑا موضو ع مہنگائی ہے (فوٹو اردو نیوز) 
پاکستان کی موجودہ سیاست میں سب سے اہم سمجھے جانے والے ضمنی انتخابات پر سب کی نظریں ہیں۔ الیکشن مہم چلانے کا آج (جمعہ) آخری روز ہے جب کہ اتوار 17 جولائی کو پنجاب بھر کی 20 نشستوں پر یہ انتخابات ہو رہے ہیں۔  
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کی چار نشستوں پر بھی ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ لاہور کے حلقوں کو انتہائی حساس قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن نے انتخابات کے روز رینجرز کو بھی پولنگ سٹیشنز کے باہر طلب کر رکھا ہے۔  
شہر لاہور کے چار حلقوں پر ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن نے تقریباً اپنا سب کچھ داؤ پر لگا رکھا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے یہ سیاسی زندگی اور موت کی کشمکش ہو۔ 
شیخ رشید  جمعے کے روز لاہور ہائی کورٹ میں اپنی ایک پیشی پر آئے تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس پورے الیکشن کا دارومدار لاہور پر ہے، دو روز بعد پتا چل جائے گا کہ لاہور کس کے ساتھ ہے لاہور جس کے ساتھ ہوا پورا میدان اسی کا ہوگا۔‘
مزید پڑھیں
لاہور شہر کے ان حلقوں میں انت گنت اشتہارات اور بینرز گلی کی نکر نکر پر لگے دکھائی دیے۔ چوکوں اور چوراہوں پر عام لوگوں کے درمیان یہ گفتگو ہو رہی ہے کہ کس کا پلڑا بھاری ہے اور کس کا نہیں۔ 
دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے ہر یونین کونسل میں اپنے کیمپ لگا رکھے ہیں جن میں شام ڈھلے چائے اور کھانوں سے لوگوں کی تواضع کی جا رہی ہے۔
جبکہ پارٹی ترانوں نے بھی سماں باندھ رکھا ہے۔  ایک شہری محمد فاروق جو کہ گڑھی شاہو کے رہائشی ہیں ان سے پوچھا کہ ان ضمنی انتخابات سے متعلق ان کا کیا خیال ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ضمنی انتخابات کا سماں بالکل نہیں لگ رہا۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے یہ عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ انتخابی مہم ہر گلی اور ہر گھر تک کی گئی ہے۔ ایک ہفتے سے روز میرے گھر میں کوئی نا کوئی ووٹ مانگنے آرہا ہے۔ صبح کے اخبار میں بھی امیدواروں کے پمفلٹس لپٹے ملتے ہیں‘ 

شہر لاہور کے چار حلقوں پر ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن نے تقریباً اپنا سب کچھ داؤ پر لگا رکھا ہے (فوٹو اردو نیوز)

جن حلقوں میں انتخاب میں ہو رہے ہیں ان میں پی پی 158 آتا ہے  یہ حلقہ گڑھی شاہو، مصطفیٰ آباد، لال کرتی کینٹ اور شاہ جمال تک پھیلا ہوا ہے۔
اس حلقے سے 2018 کے انتخابات میں اس وقت کے تحریک انصاف کے رہنما علیم خان کامیاب ہوئے تھے۔ اس حلقے میں مسلم لیگ ن نے احسن شرافت کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے میاں اکرم عثمان کو ٹکٹ دیا ہے۔ 
دوسرا حلقہ پی پی 167 ہے اس حلقے سے 2018 میں تحریک انصاف کے نذیر احمد چوہان نے مسلم لیگ ن کے میاں محمد سلیم کو ہرا کر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اب مسلم لیگ ن نے نذیر چوہان کو ٹکٹ جاری کیا ہے جبکہ تحریک انصاف نے اپنے ایک کارکن شبیر گجر کو میدان میں اتارا ہے۔ یہ حلقہ جوہر ٹاؤن، گرین ٹاؤن ، ٹاون شپ  اور وفاقی کالونی کے علاقوں پر مشتمل ہے۔  
صوبائی دارالحکومت کا تیسرا حلقہ پی پی 168 ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں ن لیگ کے سعد رفیق نے یہاں سے کامیابی سمیٹی تھی۔ بعد ازاں ان کے مستعفی ہونے پرضمی انتخابات میں تحریک انصاف کے اسد کھوکھر جیت گئے۔ اسد کھوکھر جب تحریک انصاف کے منحرف گروپ میں شامل ہوئے تو اب ن لیگ نے انہیں ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں اپنے ایک کارکن ملک نواز اعوان کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔  
چوتھا حلقہ پی پی 170 ہے یہاں سے مسلم لیگ ن کی جانب سے چوہدری امین گجر امیدوار ہیں۔ چوہدری امین گجر ماضی میں سابق وزیراعظم عمران خان کے دست راست سمجھے جانے والے اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر عون چوہدری کے بھائی ہیں۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے ظہیر کھوکھر کو اپنا امیدوار نامزد کیاہے۔ 
لاہور کے شہری ان حلقوں کے انتخابات میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ اور سب سے بڑا موضوع مہنگائی ہے۔  

چوکوں اور چوراہوں پر عام لوگوں کے درمیان یہ گفتگو ہو رہی ہے کہ کس کا پلڑا بھاری ہےاور کس کا نہیں: فائل فوٹو اے ایف پی

سیاسی پنڈتوں کے نزدیک ان انتخابات میں روایتی سیاست کے ساتھ ساتھ مہنگائی ایک اہم فیکٹر ہے جوان انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ جبکہ اس حوالے سے شہریوں کی رائے منقسم دکھائی دیتی ہے۔ کچھ لوگ تحریک انصاف کے بیانیے کے حامی ہیں تو کچھ مسلم لیگ ن کے بیانیے سے اتفاق کرتے ہیں۔  
ایک اور شہری محمد اسد نے بتایا کہ ’ہمیں تو اب سب ایک جیسے ہی لگ رہے ہیں۔ اب کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ سب ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ پہلے والے غلط تھے۔ ہم عوام یہ کہتے ہیں کہ آپ اپنا حساب دیں آپ نے ٹھیک کرنے اور مہنگائی کم کرنے میں کیا کردار ادا کیا۔میں نے ابھی  تک کسی کو بھی ووٹ دینے کا فیصلہ نہیں کیا۔‘  
عام شہریوں کی آرا تو کم و بیش مہنگائی کے گرد ہی گھوم رہی ہیں ۔ البتہ سیاسی ورکرز  پوری طرح سے میدان میں اترے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

شیئر: