آپ سے محبت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ آپکے طریقوں یعنی سنت سے ظاہری و باطنی قرب رکھا جائے
* * * * محمد ظہیر الدین بھٹی۔کراچی* * * *
نبی کریم کی امتِ اسلامیہ پر مہربانیاں محتاجِ بیان نہیں۔ امت کی ہدایت کے لئے آپ کی غم خواری واضح ہے۔ اس لئے آپ کے حقوق امت کے ہر فرد کے ذمے ہیں۔ اس مضمون میں آپ کے حقوق میں سے ایک حق، ’’ حقِ محبت‘‘ کو بیان کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ کے حقِ محبت کے حوالے سے عائد ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے صحابہ کرام بہترین نمونہ ہیں۔ بچپن میں یہ مصرع بہت سنا کہ ’’قدر نبی دا جانن والے سوں گئے وچ مدینے‘‘ ۔مگر اس کی اہمیت کا صحیح ادراک بڑی عمر میں جاکر ہوا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صحابہ کرامؓ ہی رسالت مآبکے صحیح قدردان تھے لہٰذا وہی آپکی تعظیم، اتباع اور آپ کی خاطر جاں نثاری و فدا کاری میں پوری امت کے لئے بہترین نمونہ ہیں۔ صحابہ ؓ کی حضورسے محبت کی منظرکشی حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ نے اْس وقت کی جب وہ ابھی ایمان نہیں لائے تھے اور وہ صلح حدیبیہ کے سلسلے میں مسلمانوں سے مذاکرات کرنے کے لئے کفارِ مکہ کی نمائندگی کرتے ہوئے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ انہوں نے واپس جاکر، قریشِ مکہ کو بتایا: ’’اے میری قوم! اللہ کی قسم! میں بحیثیت وفد بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں۔ میں قیصر، کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں گیا ہوں، لیکن واللہ! میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس کی اِس طرح تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد( ) کے ساتھی محمد( ) کی تعظیم کرتے ہیں۔
خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں، محمد ( )جو تھوکتے ہیں تو ان کا تھوک ان میں سے کسی آدمی کے ہاتھ میں گرتا ہے، جسے وہ اپنے چہرے پر مل لیتا ہے۔ جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل میں، ایک دوسرے سے جلدی کرتے ہیں، جب وہ وضو کرتے ہیں تو باقی پانی پر لڑ پڑتے ہیں،جب وہ بات کرتے ہیں، تو سب خاموشی سے سنتے ہیں، کوئی اونچی آواز نہیں نکالتا اور ان کی تعظیم کے پیش نظر ان کی طرف گھور کر نہیں دیکھتا۔‘‘ (بخاری شریف )۔ معیارِ صداقت و شرافت: آنحضرت کی محبت ہی معیارِ صداقت و شرافت ہے۔ قاضی عیاضؒ لکھتے ہیں : ’’امام مالک ؒ کے بارے میں ہے کہ ان سے حضرت ایوب سختیانی ؒ کی بابت دریافت کیا گیا تو فرمایا: ’’ میں جب کسی سے بھی آپ حضرات کے لئے حدیث نقل کرتا ہوں، ان میں سے ایوب ہی سب سے زیادہ باوثوق ہیں۔‘‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ایوب سختیانی ؒ کو امام مالک ؒ نے یہ اہمیت کیوں دی؟ آیئے، اس کا جواب امام مالک ؒ سے سنیں، فرماتے ہیں: ’’انہوں نے حج کیا تو میں انہیں دیکھتا رہتا تھا، مگر ان سے احادیث سنتا نہ تھا، ہاں جب ان کے سامنے حضور کا تذکرہ ہوتا تو وہ اتنا زیادہ روتے کہ مجھے ان پر رحم آجاتا تھا۔ جب میں نے ان کی یہ حالت دیکھی اور نبی پاک کی یہ تعظیم و احترام ملاحظہ کیا تو میں نے ان کی مرویات تحریر کرلیں۔‘‘(سیر اعلام النبلاء)۔ اب خود امام مالکؒ کی آنحضرت سے محبت کا حال سنیے: مصعب بن عبداللہ کہتے ہیں: مالک جب نبی اکرم کا تذکرہ کرتے تو جھک جاتے اور ان کا رنگ اس قدر متغیر ہو جاتا کہ ان کے ہم نشینوں پر ان کی یہ حالت دیکھنا گراں گزرتا۔ ایک بار ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: ’’اگر آپ لوگ وہ کچھ دیکھ لیتے جو میں دیکھتا ہوں تو میری حالت پر آپ حضرات کو ہرگز تشویش نہ ہوتی۔‘‘
امام مالک ؒ نے سید القراء محمد بن المنکدر کے بارے میں بتایا ہے: ’’جب بھی ہم ان سے کسی حدیث کی بابت دریافت کرتے تو ان پر گریہ طاری ہوجاتا، حتیٰ کہ ہمیں ان پر رحم آتا۔‘‘(حلیۃ الاولیاء ، سیر اعلام النبلاء)۔ امام مالک ؒ ہی کابیان ہے: ’’میں جعفر ؒ بن محمد کو دیکھا کرتا تھا، آپ ہنسی مذاق کرنے والے اور بکثرت مسکرانے والے تھے، مگر جب ان کے سامنے رحمت ِعالم کا تذکرہ ہوتا تو ان کا رنگ زرد پڑ جاتا۔ میں نے جب بھی انہیں رسول اللہ کا ارشاد بیان کرتے سنا تو وہ باوضو ہوتے، میں ایک مدت تک ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا، مگر میں نے انہیں3 حالتوں پر ہی پایا: یا نماز پڑھ رہے ہوتے، یا خاموش ہوتے اور یا پھر قرآن پڑھ رہے ہوتے۔ وہ لایعنی امور میں کلام نہ کرتے۔
آپ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے علماء اور عبادت گزاروں میں سے ایک تھے۔‘‘ حضرت حسن بصری ؒ جب کھجور کے درخت کے تنے کے رونے کی حدیث (بخاری ) بیان کرتے تو فرماتے: ’’اے مسلمانوں کے گروہ! جب ایک لکڑی رسول اللہ کی زیارت و ملاقات کے لئے شوق و محبت میں اس قدر بے تاب و بے قرار ہو جاتی ہے تو آپ حضرات کو اس لکڑی سے کہیں بڑھ کر آپکی زیارت کا مشتاق و گرویدہ ہونا چاہیے۔‘‘(جامع بیان العلم و فضلہ ابن عبدالبر )۔ حضرت عبدالرحمن بن القاسم ؒ جب نبی کریم رئوف و رحیم کو یاد کرتے تو دیکھا جاتا کہ رسول اللہ کے جلال و ہیبت کے تصور سے ان کا رنگ فق ہو جاتا اور منہ میں زبان خشک ہو جاتی۔ حضرت معاویہ کو اطلاع ملی کہ جناب کا بس بن ربیعہ شکل و صورت میں رسولِ انور سے مشابہہ ہیں، چنانچہ جب وہ حضرت معاویہ کے گھر آئے تو آپ اپنی جگہ سے اٹھے، ان کا خیر مقدم کیا اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ المرغاب خامی جاگیر، انہیں بہ طور عطیہ دی۔ یہ سب اکرام و احترام اس لئے کیا کہ وہ رسول اللہ سے شکل و صورت میں مشابہہ تھے(الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، للقاضی عیاض)۔ محبت ِرسول کے سلسلہ میں ہماری ذمہ داریاں: محبتِ رسول کے سلسلے میں مسلمانوں پر درجِ ذیل ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں: آپ سے محبت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ آپکے طریقوں یعنی سنت سے ظاہری و باطنی قرب رکھا جائے۔
آپ سے ثابت شدہ صحیح احادیث کا رد نہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں امام شافعیؒ کا طرزِ عمل ملاحظہ کیا جائے۔الحمیدی کہتے ہیں:ہم امام شافعی ؒ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک آدمی نے آکر ایک مسئلہ پوچھا۔ آپ نے جواب دیا کہ اس بارے میں رسول اللہنے یوں ارشاد فرمایا ہے۔ اِس پر اْس آدمی نے امام شافعی ؒ سے کہا: آپ کیا کہتے ہیں؟انہوں نے فرمایا: ’’سبحان اللہ، کیا تم مجھے کلیسا (گرجا) میں دیکھ رہے ہو؟ کیا تمہیں میری گردن میں زنار بندھی نظر آ رہی ہے؟ میں نے تمہیں بتایا ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں رسول اللہنے یہ فیصلہ دیا ہے اور تم کہتے ہو کہ آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘(حلیۃ الا ولیاء)۔ آپ کی سیرت و سنت پر اسے اسوۂ حسنہ سمجھ کر، دل و جان سے عمل کیا جائے۔ آنحضرتکی قبرِ مبارک کے اردگرد آواز بلند نہ کی جائے۔ آپ پر محبت و عقیدت سے بکثرت درود و سلام پڑھا جائے۔
آپ کے صحابہ اور ازواجِ مطہرات کا احترام کیا جائے، کیونکہ انہیں آپکے دیدار، قرب اور ہم نشینی کا شرف حاصل ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیٔ معظمکی محبت و خدمت اور براہِ راست اطاعت کے لئے منتخب فرمایا، پھر انہوں نے اسلام کے لئے جان و مال کی بے پناہ قربانیاں دیں۔ حدیث شریف میں ہے: ’’جو شخص کسی چیز سے محبت کرتا ہے، اس کی پسندیدہ چیزوں اور اس سے مشابہہ لوگوں اور اس سے متعلق چیزوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘(فتح الباری)۔ حضور کے کسی بھی صحابی سے بدگمانی یا کسی کی عیب چینی یا ان میں سے کسی ایک کی شان میں بھی گستاخی سعادتِ ابدی سے محروم ہونے کی علامت ہے۔ رحمتِ عالمنے فرمایا: ’’میرے صحابہ میں سے کسی ایک کو بھی برا نہ کہو، اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر سونا (اللہ راہ میں) خرچ کرے تو کسی صحابی کی ایک مشت خیرات کے برابر اور نہ اس کے نصف کے برابر پہنچ سکتا ہے۔‘‘(بخاری و مسلم)۔
آپ کے اہلِ بیت اور آپ کی آل و اولاد کی تکریم کی جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے پاس حضرت عبداللہ بن الحسن بن الحسین بن ابی طالب ؒ اپنے کسی ذاتی کام کے لئے تشریف لے گئے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے ان سے کہا: ’’اگر آپ کا کوئی کام ہو تو کسی کو بھیج دیا کیجیے یا مجھے براہِ راست لکھ بھیجئے، مجھے اپنے دروازے پر آپ کو دیکھ کر اللہ سے حیاء آتی ہے۔‘‘ (الشفاء)۔ آپ کی مسجد، آپ کی قبرِ مبارک اور آپ کے روضہ انور میں موجود آپکے صاحبینؓ (ابوبکرؓ و عمرؓ) کی قبروں کی زیارت کی جائے۔ نیز آپکے شہر اور علاقے سے محبت کی جائے۔ آپ سے محبت کا تقاضا ہے کہ آپ کی زبان عربی، آپ کی قوم یعنی عربی سے محبت کی جائے۔
عربی زبان کے لکھنے، پڑھنے، بولنے اور سننے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ عربی زبان و ادب، دینِ اسلام، اسلامی شریعت اور قرآن و حدیث کی ترویج و تبلیغ اور تعلیم و تدریس اور تشریح و توضیح میں مشغول و منہمک علماء و مشائخ کا احترام و اکرام کیا جائے۔ آپ کی اتباع کی جائے۔ بدعات سے دور رہا جائے۔ عبادت سے متعلق اعمال میں سے کوئی عمل بھی اْس وقت تک قابلِ قبول نہیں جب تک کہ آنحضرت کی اتباع و موافقت نہ ہو۔ حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں: ’’قول نہیں درست ہوتا مگر عمل سے، قول و عمل صحیح نہیں ہوتے مگر نیت سے، اور قول و عمل اور نیت صحیح نہیں ہوتے مگر سنت سے۔‘‘ (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ )۔ آپ کی پیروی ہی اللہ تعالیٰ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی دلیل ہے۔ رسول کریم پر نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید سے محبت کی جائے، اس کی تلاوت کی جائے، اسے سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ قرآن وسنت کے نظام کو نافذ کرنے کے لئے اجتماعی و انفرادی طور پر خوب کوشش کی جائے۔