ان کا کہنا تھا کہ ’دو کمپنیوں نے انٹرویو کے لیے بلایا اور بعد میں کہا کہ اسامی ہی ختم کر دی گئی ہے جبکہ دیگر جگہوں پر کم تنخواہ پر کام کرنے کے لیے کہا گیا۔‘
لیو قیان چین کے اُن ایک کروڑ 10 لاکھ نئے گریجویٹس میں شامل ہیں جن کے لیے اس وقت ملازمت کا حصول کورونا کی نئی لہر کے باعث بند کیے جانے والے کاروبار کی وجہ سے مشکل ہو گیا ہے۔
وائرس کی حالیہ لہر پر قابو پانے کے لیے نئے حکومتی اقدامات میں فیکٹریوں، ریستوران اور دیگر کاروباری اداروں کو بند کیا گیا جبکہ باقی رہ جانے والے کاروباری مراکز نے ملازمتیں ختم اور معاوضے کم کر دیے ہیں۔
لیو قیان نے بتایا کہ ’جس وقت سے ملازمت کی تلاش شروع کی تو لگا جیسے میرے لیے کچھ نہیں۔ جیسے ایک مشین نے میرے مستقبل کو کاٹ ڈالا ہو اور مجھے نہیں معلوم کہ میں ان ٹکڑوں کو جوڑ بھی سکوں گی۔‘
26 سالہ لیو قیان کے مطابق جب انہوں نے 12 ہزار ڈالر کے لگ بھگ ماہانہ تنخواہ مقامی کرنسی میں مانگی تو کچھ آجروں نے نوکری دینے سے انکار کر دیا۔
چین میں ملازمت تلاش کرنے والے پلیٹ فارم لیپن کے مطابق پچھلے سال نئے گریجویٹ کو ڈیڑھ ہزار ڈالر ماہانہ کے لگ بھگ تنخواہ ادا کی گئی تھی۔
چین انسٹی ٹیوٹ فار ایمپلائمنٹ ریسرچ اینڈ ژاؤپین ڈاٹ کام کے مطابق جون میں ختم ہونے والے تین مہینوں میں ہر ملازمت کے آغاز کے لیے تقریباً دو گریجویٹس مقابلہ کر رہے تھے، جو کہ گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں 1.4 فیصد زیادہ ہے۔