Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چین سماجی کارکنوں کو قید میں رکھنے کے لیے نفسیاتی ہسپتالوں کا استعمال کرتا ہے: رپورٹ

چین پر اپنے مخالفین کو نفسیاتی ہسپتالوں میں زبردستی رکھنے کا الزام ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
چین کی جانب سے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر سماجی کارکنوں کو قید میں رکھنے کے لیے نفسیاتی ہسپتالوں کے استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک غیر سرکاری تنظیم نے اپنی جاری کردہ رپورٹ میں کہا ہے کہ چینی حکام سیاسی قیدیوں کو سزا دینے کے لیے کئی دہائیوں سے نفسیاتی ہسپتالوں کا استعمال کر رہے ہیں۔
چین میں یہ نفسیاتی ہسپتال ’انکانگ‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
سپین کی ’سیف گارڈ ڈیفینڈرز‘ نامی تنظیم نے منگل کو جاری ہونے والی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چین میں سال 2010 میں اصلاحات متعارف ہونے کے باوجود آج بھی یہ طریقہ کار جاری ہے۔
رپورٹ میں موجود ڈیٹا متاثرین اور ان کے اہل خانہ سے انٹرویو پر مبنی ہے جس میں 99 افراد کے بیانات کا جائزہ لیا گیا جو سال 2015 اور 2021 کے درمیان سیاسی بنیادوں پر نفسیاتی ہسپتالوں میں زبردستی رکھے گئے تھے۔
تنظیم کے مطابق سال 2022 میں چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) ابھی بھی سیاسی مخالفین کو نفسیاتی ہسپتالوں میں قید رکھتی ہے جب کہ ان کارروائیوں کو روکنے کے لیے 10 سال پہلے قانون میں ترامیم کی گئی تھیں۔
تنظیم کے مطابق کمیونسٹ پارٹی درخواست گزاروں اور سماجی کارکنوں کی عدالتی نظام تک رسائی میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے جنہیں وکیل کرنے یا مقدمہ چلانے کا کوئی حق نہیں دیا جاتا جبکہ ان افراد کو ’ذہنی بیمار‘ قرار دیتے ہوئے سماجی طور پر علیحدہ رکھا جاتا ہے۔

چین پر سنکیانگ میں حراستی کیمپس چلانے کا الزام ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

سماجی تنظیم کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے ساتھ سی سی پی کی ملی بھگت سے متاثرین کو غیر ضروری طور ہر ہسپتال میں رکھا جاتا ہے اور زبردستی ادویات دی جاتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قیدیوں کو جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا اور الیکٹرک شاکس دیے گئے۔
قیدیوں میں ایک نوجوان لڑکی بھی شامل تھی جس نے لائیو ٹویٹ میں چینی صدر شی جن پنگ کی تصویر پر پینٹ پھینکا تھا۔
اس سے قبل بھی سماجی کارکن اور مغربی حکومتیں چین پر الزام عائد کر چکی ہیں کہ چین کے مغربی سنکیانگ صوبے میں مسلمان اقلیتوں کو کیمپس میں رکھا جاتا ہے جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جبری مشقت بھی کروائی جاتی ہے۔ جبکہ چین نے ان کیمپس کو ٹریننگ سینٹڑ قرار دیتے ہوئے مؤقف اپنایا ہے کہ یہاں دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔

شیئر: