ہماری کوشش یہی رہی کہ ہمارا بھانجا ایسا ریختہ داں ہو کہ غالب شالب ، فیض شیض، فراز شراز سب کے سب پیچھے رہ جائیں
* * * شہزاد اعظم* * *
ہم اصل میں اردو کے دلدادہ ہیں۔ ہمیں اردو بولتے ہوئے لطف آتا ہے۔ ہم اُردو سن کر خوش ہونے والوں میں سے ہیں،جب کوئی اردو بولتا ہے تو ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ کوئی ہماری قومی زبان میں بات کر رہا ہے۔ دیارِ غیر میں جب اردو سنتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں پاکستان مشہور ہو رہا ہے۔ ہم نے کئی لوگ ایسے بھی دیکھے ہیں جن کی اپنی زبان تو کوئی اور تھی مگر انہوں نے اردو سن کرکہا کہ یہ تو پاکستانی بولی ہے۔مختصر یہ کہ ہم اپنی روز مرہ گفتگو میں،آخری ممکنہ حد تک اُردو کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ بعض مقامات ایسے ہیں جہاں اُردو نہیں بلکہ ہم مجبور ہیں۔ مثلاً ’’بس‘‘ انگریزی کا لفظ ہے اور اسے ہم اردو میں استعمال کرنے پر مجبور ہیںکیونکہ وہ واقعہ ہمیں نہیں بھولتا کہ ایک دفعہ ہم کسی بزم میں موجود تھے، وہاں صنفِ قوی کے علاوہ نازک صنف کی ’’مسجل‘‘ یعنی وہ ہستیاں جن کی منگنی ، نکاح یا شادی ہو چکی تھی اور ’’غیر مسجل‘‘یعنی وہ ہستیاں جو منگنی، نکاح یا شادی کی منتظر تھیں، سب موجود تھیں۔ ہم ٹھہرے’’ فریفتۂ ریختہ ‘‘چنانچہ گفتگو کے دوران ہم نے ’’بس‘‘ کو ’’ضیافت دار چرخی‘‘کہا تو معاملات بگڑنے لگے۔ ہم نے بگاڑ کی اصلاح کرنے کی کوشش کی مگر حاضرینِ محفل یک زبان ہو کر ہماری ایسی کی تیسی کرنے پر کمر بستہ ہوگئے۔ ہم نے بھرپور انداز میں اپنا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ اس میں سیخ پا ہونے والی کون سی بات ہے؟ سب نے کہا کہ آپ نے ’’ضیافت دار چرخی‘‘کہاہے جس میں ’’بس‘‘ کے مفہوم کا تو شائبہ تک نہیں۔
اب دیکھئے ’’ضیافت‘‘ کا مطلب ہوتا ہے کھانے پینے کی دعوت، ’’دار‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ’’پھانسی‘‘ اور چرخی کا مطلب ہے ’’آسمان کی اہلیہ‘‘ یا ’’آسمان کی مؤنث‘‘ کیونکہ ’’چرخ‘‘آسمان کو کہتے ہیں اور اس کی زنانی چرخی کہلائے گی۔اسے ہم ’’آسمانی ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اب فرمائیے کہ ان تینوں کو یکجاکر دیا جائے تو ’’ضیافت دار چرخی‘‘ کے معانی ہونگے ’’دعوتِ طعام، پھانسی ، آسمانی۔‘‘ہم نے اس بزم میں سب کی موجودگی میں ہی اپنا سر پیٹ لیا تھا۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی کسی نہ کسی روپ میں ذکر کر چکے ہیںکہ اپنے بھانجے سے ہماری ’’ہوائی مڈبھیڑ‘‘ اکثر ہوتی رہتی ہے۔ اسے ہم نے آنکھ کھولتے ہی اردو سکھانی شروع کر دی تھی۔ہماری کوشش یہی رہی کہ ہمارا بھانجا ایسا ریختہ داں ہو کہ غالب شالب ، فیض شیض، فراز شراز سب کے سب پیچھے رہ جائیں بلکہ اس کے سامنے بغلیں جھانکتے رہ جائیں۔اس حوالے سے ہم نے عزم کر لیا تھا کہ بھانجے سے گفتگو کے دوران ایسا کوئی لفظ ادا نہیں کریں گے جو اردو لغت میں شامل نہ ہو یا جو کسی دوسری زبان کا ہو۔ اسی لئے آج اسکا یہ عالم ہے کہ وہ خالص اردو بولتاہے۔ اسکی زبان و بیان میں کوئی لفظ ایسا نہیںہوتا جو اردو میں شامل نہ ہو۔ہوش سنبھالنے کے بعد سے وہ بڑے فخریہ انداز میں کہتا رہا ہے کہ میری زندگی مؤردہے، میں اپنے ماموں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے ’’میریت، غالبیت، فیضیت وفرازیت ‘‘سے ہمکنار کیا۔ ہمارے بھانجے کی گفتگو اور دیگر نوجوانوں کی بات چیت میں کیا فرق ہے، اس کی لا تعداد مثالیں دی جا سکتی ہیں مثلاً اگرکوئی نوجوان مبتلائے بخار ہو تو اس کی والدہ اسے کہتی ہیں کہ ’’سنی! جاؤ ڈاکٹر سے میڈیسن لے آؤ، بہت ہائی فیور ہے، وہ تمہیں انٹراوینس انجیکشن دے گا اور’’اورَلی اینٹی بایوٹکس دے گا،نوٹ کرنا کہ2ڈوززمیں ہی فٹ فائن ہوجاؤ گے، جاؤ، ٹائم ویسٹ نہ کرو۔‘‘
یہی بات جب بھانجے کو کہی جاتی تو جملے کے مشمولات یوں ہوتے کہ ’’ جاؤ! طبیب سے دوا لے آئو، حمیٰ بہت بلند ہے، معالج تمہیں درونِ وریدی پچکاری دے گا اور براستہ دہن لی جانے والی ضدِ حیوی ادویہ دے گا،غور کرنا کہ دو خوراکوں میں ہی چنگے بھلے ہوجاؤ گے، جاؤ، تضیعِ اوقات نہ کرو۔‘‘ آج کا جدید دور ہے، لوگ سوشل ویب سائٹس میں مگن رہتے ہیں۔ ہمارا بھانجا بھی ان سب جدید اشیاء اور سہولتوں کا استعمال کرتا ہے مگر یہ استعمال بھی اردو میں ہی ہوتا ہے۔ اس کی مثال بھی نہایت ضروری ہے۔ فرض کریں کہ آپ کسی نوجوان سے اس کے آئی ٹی معاملات اور مصروفیات کے بارے میں استفسارکریں تو وہ بتائے گا کہ میں فیس بُک پر کمنٹس بھیجتا ہوں، ٹویٹر بھی یوز کرتا ہوں، دونوں سوشل سائٹس پر میرا اکاؤنٹ موجود ہے۔ میں اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل فون، دونوں سے ان سائٹس پر سائن اِن ہوتا ہوں۔ یہ سوال آپ ہمارے بھانجے سے کریں تووہ مؤرد جواب یو عطا کرے گا کہ ’’میںکتابِ چہرہ پر تبصرے بھیجتا ہوں، ’’جھڑکی‘‘ بھی استعمال کرتا ہوں، دونوں سماجی نہجوں پر میرا حساب موجود ہے ، میں ’’فوق المہد‘‘ اور ’’ہاتفِ رواں‘‘ دونوں سے ان نہجوں پر ’’درانداز‘‘ ہوتا ہوں۔‘‘
آج کل ہمارا ناطقہ بند ہے۔ اس ’’بندشِ ناطقہ‘‘ کااصل سبب ہمارا بھانجا ہے۔ بھانجے میں کوئی عیب نہیںبس ایک بات واضح ہے کہ وہ دورِ حاضر کا نوجوان ہے یعنی پاکستان کی نسلِ نو۔ اس نسل کے بارے میں ہم کہتے، سنتے، لکھتے، سمجھتے، سمجھاتے اور بتاتے چلے آئے ہیں کہ یہ نسل اُن ہستیوں کا مجموعہ ہے جنہوں نے مستقبل میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، اسے لئے انہیں ہم معمارانِ مستقبل کہتے ہیں۔ فی ا لحال ہمارے اس بھانجے نے ملک وُلک کی باگ ڈور تو نہیں سنبھالی مگر اس نے ہماری باگیں ضرور کھینچ رکھی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ماموں،ہمارے ملکی ابلاغی ذرائع نے قومی زبان کی درگت بنا رکھی ہے۔آپ نے تو مجھے انگریزی کی جگہ اُردو الفاظ استعمال کرنے کاعادی بنایا تھا مگر آج صورتحال نہایت حیران کن ہے۔ ہمارے برقیاتی ابلاغی ذرائع نے پہلے توجملوں میں اردو کی جگہ انگریزی کے الفاظ استعمال کرنے شروع کئے اور اب اس کے ساتھ ہندی کے لفظ بھی ٹھونسنے لگے ہیں۔کوئی ’’لنگر ہستی‘‘ کہتی سنائی دی کہ ہمارے کِڈز کو چاہئے کہ وہ اپنے پیرنٹس کی سیوا کریں۔اسی طرح ایک صاحب فرما رہے تھے کہ ہمیں ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے سے ایوائڈ کرنا چاہئے اور ’’شانت‘‘ رہنا چاہئے۔ اسی طرح ایک محترم مہمان خاتون سے کہہ رہے تھے کہ ’’لا ابائیڈنگ‘‘ تو ہر شہری کا ’’کرتوو‘‘ ہوتی ہے، اس کانٹیکسٹ میں آپ کے کیا’’ وچار‘‘ ہیں۔ بھانجے نے کہا کہ ماموں! آپ نے ساری زندگی میری گفتگو کو مؤرد بنانے کی کوشش کی، آج ہمارے ذرائع قوم کی گفتگو کو ’’مہند‘‘ کرنے کی ’’سازش‘‘ کر رہے ہیں، انہیں روک دیجئے تاکہ ہماری قومی زبان ہی نہیں بلکہ ہمارا تشخص بھی برقرار رہے۔قبل اس کے کہ مہندسازش کے’’پیپل کی کونپل‘‘ ، تناور درخت بن کر ہمارے وجود میں دراڑیں ڈال دے، اسے مسل دیجئے۔ بھانجے نے پہلے تو ہمارا ناطقہ بند کیا تھا مگر اس کی یہ ’’فریاد‘‘ سن کر ہماری سِٹی ہی گُم ہوگئی۔